طلاق کی سیاست

شمشاد حسین فلاحی

سپریم کورٹ نے گزشتہ دنوں بیک وقت تین طلاق کو غیر قانونی قرار دے دیا۔ کورٹ کے فیصلے الفاظ جو محض ایک جملے پر مشتمل ہیں یہ ہیں:

“In view of different opinions recorded, by a majority of 3:2 the practice of ‘Talaq-e-Biddat’- Tripple talaq is set aside.”

۳۹۵ صفحات پر مشتمل عدالتی بحث کی سمری (خلاصہ) درج کرنے کے بعد عدالت نے یہ آرڈر جاری کیا۔

عدالت کا یہ فیصلہ نہ تو حیرت انگیز ہے اور نہ ہی غیر متوقع۔ حیرت انگیز بات تو یہ ہے کہ فیصلہ آنے کے چند ہی منٹ بعد ایک خاص ذہنیت کے حامل افراد نے پٹاخے پھوڑ کر اور مٹھائیاں تقسیم کر کے خوشیاں منائیں اور ملک کو یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ انھوں نے بڑی کامیابی کے ساتھ مسلم خواتین کو ایک ’’بڑے ظلم‘‘ سے نجات دلادی ہے۔ اسی طرح ملک کے سیاسی قائدین نے بھی ٹویٹ کر کے اور سیاسی بیانات دے کر یہ ثابت کرنے کی کوشش کی کہ یہ ان کی بڑی کامیابی ہے۔ ہوسکتا ہے کہ یہ ان کی بڑی کامیابی ہو بلکہ ہم تو یہ بھی کہہ سکتے ہیں کہ ’’ممکن ہے کہ یہ ان کی بڑی کامیابیوں کی طرف محض ایک قدم ہو‘‘ کیوں کہ ان کی کوششوں کی جہت بالکل ہی الگ ہے۔ لیکن ہم پورے اطمینان کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ یہ ان کی کامیابی سے زیادہ ان لوگوں کے لیے اطمینان کی بات ہے جن کے خلاف یہ طاقتیں سیاسی چال بازیاں کررہی ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ عدالت نے اپنا وقار، انصاف کے تقاضوں اور عدالتی طریقوں کے مطابق فیصلہ کر کے، قائم رکھا ہے اور منفی سوچ رکھنے والوں کو اس بات کا موقع نہیں دیا کہ وہ اپنی شرپسندی کو مزید پھیلا سکیں، اگرچہ اس کے امکانات ابھی بھی باقی ہیں۔

تین طلاق کو فقہائے شریعت کی زبان میں طلاق بدعت کہا جاتا ہے اور بدعت کے بارے میں اللہ کے رسولﷺ کا یہ فرمان ہمارے سامنے ہے کہ:

’’ہر بدعت گمراہی ہے اور ہر گمراہی انسان کو جہنم میں لے جانے والی ہے۔‘‘

اس حیثیت سے اگر مسلمانوں کو کسی بدعت سے نجات ملتی ہے اور اس کے نتیجے میں وہ شریعت اسلامیہ کی متعین کردہ راہ کی طرف آتے ہیں تو یہ ان کے لیے تشویش کی بات نہ ہونی چاہیے۔ یہی وجہ ہے کہ مسلمانوں نے اس فیصلے کے خلاف کسی بھی قسم کا احتجاج یا مخالفت نہیں کی۔ اسے مسلمانوں کے اندر ملکی قانون اور عدالتی نظام میں اعتماد کے طور پر دیکھا جانا چاہیے، برخلاف ان واقعات کے جو ’ڈیرا سچا سودا‘ کے قائد، مجرم زنا و بدکاری گرمیت رام رحیم کو سزا سنائے جانے کے بعد ملک کی کئی ریاستوں میں پیش آئے، جہاں ۳۴ افراد مارے گئے، کئی سو زخمی ہوئے اور ملک کی اربوں کی ملکیت کو جلا کر راکھ کر دیا گیا۔ حالاں کہ وہ مجرم تھا، قانون اور اصولوں کا باغی تھا اور عورتوں کی عزت سے کھلواڑ کرنے والا تھا۔

۱۹۸۶ کے قضیہ شاہ بانو بہ نام محمد احمد میں طلاق کے سلسلے میں آنے والے سپریم کورٹ کے بڑے فیصلے کے بعد یہ دوسرا بڑا فیصلہ آیا ہے۔ اب سے کوئی ۳۱ سال پہلے کے اس فیصلے کی مسلمانوں نے مخالفت کی تھی کیوں کہ وہ شریعت کے نظام طلاق سے براہ راست ٹکراتا اور شریعت کا مخالف تھا۔ لیکن یہ بات حالیہ فیصلہ کے ساتھ نہیں ہے کیوں کہ امت اسے طلاق بدعت ہی مانتی ہے اور اس کے بجائے شرعی طلاق کو رائج کرنے کی جدوجہد کرتی بھی رہی ہے اور اب بھی کرے گی۔ مسئلہ صرف یہ تھا کہ پندرہ بیس کروڑ کی مسلم آبادی والے ملک میں جہاں مسلمان خود شریعت کے احکامات سے ناواقف ہیں اور فکر و شعور کے اعتبار سے بھی کمزور ہیں وہاں بیداری پیدا کرنا خود بڑی جدوجہد کا طالب کام ہے اور ہم جب امت مسلمہ ہند کے افراد اس پہلو سے اپنا احتساب کرتے ہیں تو کھلے دل سے اپنی ناکامی کو تسلیم کرتے ہیں کہ تین دہائیوں پر مشتمل طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود ہمارے افراد، ہماری تنظیمیں اور جماعتیں اور مسلم پرسنل لاء بورڈ جو خاص اسی مقصد سے وجود میں آیا تھا، اپنی ایک پوری نسل کو محض نکاح و طلاق کے شرعی احکام سے آگاہ کرنیمیں بٹھانے میں ناکام رہا۔

۱۹۸۶ یا اس کے بعد پیدا ہونے والے بچے آج تیس سال سے زیادہ عمر کے ہیں۔ ان میں کتنے ہی ایسے ہیں جو آج IAS اور IPS ہیں، حکومتی اداروں، صنعتی و تجارتی کمپنیوں اور سماجی خدمت کے میدان میں فعال رول ادا کر رہے ہیں۔وہ اعلیٰ تعلیم یافتہ بھی ہیں اور اپنے اپنے میدانوں میں کامیاب افراد بھی، مگر افسوس کہ ہم ان کو صرف اتنی بات نہ بتا سکے کہ اگر ضرورت پڑے تو ازدواجی معاملات کو شریعت کے مطابق کیسے Settle کیا جائے۔یہ ہماری اجتماعی ناکامی نہیں تو اور کیا ہے؟ ذہن میں رہے کہ اس گفتگو کا مقصد یہ ہرگز نہیں کہ ہم ملی قیادت، اس کی تنظیموں یا اداروں پر تنقید کر رہے ہیں بلکہ اس کا مقصد یہ ہے کہ اپنی نئی نسل کے اندر دینی شعور کی بیداری کے لیے ان تھک جدوجہد مطلوب ہے۔ ایسی جدوجہد جو ہر قسم کے مفادات اور اختلافات سے اوپر اٹھ کر انجام دی جائے۔

تین طلاق کے سلسلے میں مسلمانوں کی سوچ محض اس تشویش پر مبنی ہے کہ حکومت طلاق کو بہانا بنا کر مسلمانوں کے پرسنل لاء کو ختم کر کے یونیفارم سول کوڈ نافذ کرنا چاہتی ہے۔ اس حیثیت سے ہم پورے یقین کے ساتھ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمانوں کی بے چینی کو تین طلاق کے خاتمہ سے جوڑ کر دیکھنے کے بجائے ان کو ششوں پر تشویش سمجھا جانا چاہیے جو برسر اقتدار گروپ مسلم پرسنل لاء کے سلسلے میں کہتا ہے اور جو دستور ہند کی اس بنیادی روح کے خلاف ہے جو وہ اقلیتوں کو ہی نہیں ملک میں بسنے والوں کو مذہب کی آزادی کے نام پر دیتا ہے۔

اگر حکومت مسلمانوں کو اس بات کی یقین دہانی کرا دے کہ ان کے پرسنل لاء سے چھیڑ چھاڑ نہیں ہوگی اور ان پر یونیفارم سول کوڈ نہیں تھوپا جائے گا تو مسلمانوں کو کیا پڑی ہے کہ وہ کسی تشویش میں مبتلا ہوں مگر کیا حکومت وقت اس بات کی یقین دہانی کرا سکتی ہے؟ ہرگز نہیں یہی تو وہ لوگ ہیں جنھوں نے فیصلہ آتے ہی خوب بغلیں بجائی تھیں۔

اس تناظر میں جب ہم سوچتے ہیں تو اندازہ ہوتا ہے کہ ہندوستانی مسلمانوں کو موجودہ دور میں جہاں سیاسی مفاد پرستوں کی سیاست سے لوہا لینا ہے، خواہ فرقہ پرستی کی سیاست ہو یا ووٹ بینک کی سیاست، وہیں مسلمانوں کے اندر موجود جہالت، لاعلمی، بے دینی اور مسلکی اختلافات کو ختم کرنے کی بھی جان توڑ کوشش کرنی ہے ان دونوںمحاذوں میں سے کسی ایک بھی محاذ سے غفلت ہمارے مستقبل کو تباہ کرنے کے لیے کافی ہوگی۔

خصوصی شمارہ کی اشاعت

ماہ نامہ حجاب اسلامی نے گزشتہ چودہ سالوں کے درمیان صرف ایک خصوصی نمبر شائع کیا ہے۔ یہ نمبر فروری ۲۰۰۷ میں شائع ہوا تھا اور اس کا موضوع تھا ’’مسلم خاتون اور اس کی شخصیت کا ارتقاء‘‘۔ اللہ کے فضل و کرم سے یہ خصوصی نمبر بہت مقبول ہوا اور لوگ اب بھی اس کا مطالبہ کرتے ہیں۔ عام رسائل و جرائد کی خصوصی اشاعت کے نام پر غیر معیاری مواد پیش کرنے کی روایت سے ہٹ کر ہم نے اہم موضوع پر بھرپور مواد اور معیاری تحریروں کو اپنے لیے زیادہ ضروری سمجھا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نمبر کے بعد سے اب تک ہم کوئی خصوصی اشاعت پیش نہیں کر سکے۔

گزشتہ کئی مہینوں سے جب سے تین طلاق کا اشو میڈیا میں گرم ہوا ہم نے سوچا کہ اس موضوع پر مسلم سماج میں بیداری پیدا کرنا ضروری ہے اور اب جب کہ تین طلاق پر عدالت نے پابندی عائد کر دی ہے اسلام کے خاندانی نظام کا تعارف اور اس کی اہمیت کو پیش کرنا ضروری محسوس ہو رہا ہے۔ چناں چہ ہم نے اسلام کے عائلی نظام کے تعارف طلاق و خلع کے مسائل، طلاق اور پرسنل لاء پر ملک میں جاری سیاست اور یونیفارم سول کوڈ کے اندیشے سے عوام کو واقف کرانے کے لیے ایک خصوصی اشاعت کا منصوبہ تیار کرکے اس پر عمل شروع کر دیا ہے۔ یہ خصوصی شمارہ ان شاء اللہ دسمبر ۲۰۱۷ کا شمارہ ہوگا جو اپنے موضوع پر دستاویز کی حیثیت رکھے گا۔ اس اشاعت میں جہاں اسلام کے عائلی نظام کا تعارف ہوگا وہیں مسلم پرسنل لاء اور یونیفارم سول کوڈ کے مختلف پہلوؤں کا بھی جائزہ ہوگا۔

قارئین حجاب اسلامی سے درخواست ہے کہ وہ اس شمارے کو زیادہ بہتر انداز میں پیش کرنے میں ہمارا تعاون فرمائیں۔ اسی طرح ایجنٹ حضرات سے بھی گزارش ہے کہ وہ اس دستاویزی اشاعت کو زیادہ سے زیادہ لوگوں تک پہنچانے کی کوشش کریں۔ یہ شمارہ ۳۰۰ صفحات سے زیادہ ضخیم ہوگا اور اس میں ملک کے معروف علماء ، صحافی، قانون داں اور مختلف شعبہ ہائے حیات سے تعلق رکھنے والی خواتین کی تحریریں ہوں گی۔ اس شمارے کے مالی اخراجات کی تکمیل کے لیے ہم اہل خیر، اصحاب صنعت و تجارت اور دیگر اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ اس میں اپنے اشتہارات شائع کرا کر دسیوں ہزار خاندانوں اور اداروں تک پہنچنیکے موقع سے فائدہ اٹھائیں۔lll شمشاد حسین فلاحی

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں