طلاق کی سیاست

فاخرہ عتیق، وانم باڑی (ممبر مسلم پرسنل لا بورڈ)

ملک میں وقفہ وقفہ سے یونیفارم سول کوڈ کی بات کی جاتی ہے اور کہا جاتا ہے کہ ملک کے تمام شہریوں کے لیے یکساں قانون ہونا چاہیے۔ یہ بات ایک ایسے ملک میں کی جا رہی ہے جہاں مختلف مذاہب، تہذیبوں اور متنوع زبان بولنے اور الگ الگ ثقافتوں والے لوگ رہتے ہیں۔ ایسے میں ایک بڑا سوال یہ ہے کہ یہاں یونیفارم یکساں سول کوڈ کا نفاذ ملک کے شہریوں بنیادی حقوق کے تحفظ کا ذریعہ بنے گا یا ان کے بنیادی حقوق کو ختم کرنے کا سبب ہوگا۔

سادہ انداز میں اگر ہم کہیں تو حقیقت یہ سامنے آتی ہے کہ ہندوستان میں جاری ذاتی واد اور کاسٹ سسٹم جو ملک کے ہر ہر کونے میں ایک بڑا سیاسی اور تہذیبی عنصر ہے ابھی تک کنٹرول سے باہر ہے۔ سیاست میں اور انتخاب کے وقت اس کے تانے بانے ملائے جاتے ہیں اور جو اس کاسٹ سسٹم کی صحیح انجینئرنگ کرنے میں کامیاب ہوجاتا ہے وہ پارٹی کی سطح پر بھی اور امیدوار کی سطح پر جیت جاتا ہے۔ اس کاسٹ سسٹم میں انسانوں کے درمیان اتنی بڑی تفریق ہے کہ اسے پاٹا نہیں جاسکا اور محض لبھاؤنے وعدوں کی بنیاد پر اسے قابو کیا جاتا ہے۔ ایسے میں یونیفارم سول کوڈ کی بات کچھ خاص ذہنیت رکھنے والے سیاست دانوں کے ہاتھوں میں سیاسی آلہ کار سے کچھ بھی زیادہ نہیں اور اگر اسے عملاً نافذ کیا گیا تو ہندوستان کی ممتاز شناخت ’’یونٹی ان ڈائیورسٹی‘‘ پر انتہائی برے اثرات کا ذریعہ ہوگا۔

ہندوستان بھی تنوع میں وحدت (Unity Diversity) کی عجیب و غریب مثال ہے جب سوویت روس ٹوٹنے کے دہانے پر آگیا تو اس وقت کی برطانوی وزیر اعظم تھیچر نے گوربا چوف سے کہا تھا کہ تمہیں ہندوستان سے سبق لینا چاہیے جو تنوع میں وحدت کی بہترین مثال ہے۔ ایک ویب سائٹ www.india.org کے مطابق صرف ریاست مہاراشٹر میں 667 قانون ہیں اور تمام ریاستوں میں 6748 ذاتیں، 460 مذاہب اور 6000 زبانیں ہیں۔ ایسے میں اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ یونیفارم سول کوڈ کے نتائج کیا ہوں گے۔ اب ہم سوال کرسکتے ہیں کہ کیا یونیفارم سول کوڈ کا اکلوتا ہدف مسلم پرسنل لا ہے۔

جہاں تک مسلم پرسنل لا کا معاملہ ہے تو مسلم عوام خاص طور پر اور دیگر لوگ عام طور پر اس سے واقفیت نہیں رکھتے اور وہ یہ نہیں جانتے کہ یہ عائلی مسائل کا بہترین حل ہے باوجود اس کے کہ اس کا مثالی نفاذ ہمارے سماج میں ابھی تک نہیں کیا جاتا رہا ہے۔ سب جانتے اور کہتے ہیں کہ ہمارا ملک مختلف مذاہب، عقائد، تہذیبوں اور زبانوں والا ملک ہے اور ان کے اپنے اپنے عائلی قوانین ہیں جو ان کے مذہب، عقیدے اور روایات کا احترام کرتے ہوئے انہیں عمل کرنے کی آزادی دیتے ہیں۔ ایسے میں پرسنل لا کو ختم کرنے کے لیے یونیفارم سول کوڈ کا نفاذ ہمارے ملک اور سماج کے تانے بانے بکھیرنے کا سبب ہوگا۔

نظام قانون میں قانون کو دو حصوں میں تقسیم کیا جاتا ہے ایک کرمنل لا اور دوسرا سول لا۔ کرمنل لا جسے انڈین پینل کوڈ (IPC) کہا جاتا ہے وہ پہلے ہی سے یکساں طور پر ملک کے تمام شہریوں پر نافذ ہے۔ سول لاء میں بھی ایک بڑا حصہ تمام شہریوں کے لیے یکساں ہے۔ فیملی لاء جسے عائلی قانون کہتے ہیں سول لا کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے جسے ہندوستان کی مذہبی و تہذیبی اکائیاں اپنے لیے لازمی سمجھتی ہیں۔ اور تصور اور عمل اس مذہبی آزادی کے عین مطابق ہے جس کی ضمانت دستور ہند اپنے شہریوں کو دیتا ہے۔ چناں چہ جو بھی پرسنل لا اس وقت تلک میں موجود ہیں انہیں دستور ہند کا قانونی تحفظ حاصل ہے۔

پرسنل لا صرف مسلمانوں ہی کا نہیں ہے بلکہ دیگر مذہبی اکائیوں کے ساتھ ساتھ ہندوؤں کا بھی پرسنل لا ہے۔ ہندو پرسنل لا کے مطابق شمالی ہند میں ہندو فرد اپنی بھانجی / بھتیجی سے شادی نہیں کرسکتا جب کہ جنوبی ہند کے بعض ہندوؤں کے یہاں یہ جائز ہے۔ آدی باسی ہندو قانون کے تحت نہیں آتے ان کا اپنا روایتی قانون ہے۔ عیسائیوں کا اپنا پرسنل لا ہے اس میں کرسچین مریج ایکٹ 1869 ہے اس کے مطابق ایک عیسائی عورت کا شوہر اگر کوئی دوسرا مذہب اختیار کرلے تو وہ اس سے طلاق لے سکتی ہے۔ اسی طرح سکھ کمیونٹی کا 1908 سے ’آنند میریج ایکٹ‘ رائج ہے جب کہ پارسی عقیدے کے لوگ 1908 سے اپنا پرسنل لا رکھتے ہیں اور ان کے یہاں خونی رشتوں مین شادی منع ہے جب کہ دیگر کئی مذہبی اکائیاں اسے نہیں مانتیں۔ جہاں تک مسلم پرسنل لا کا معاملہ ہے تو یہ الٰہی ہدایات پر مبنی ہے یہاں کوئی فرد، عالم یا مذہبی شخصیت یہ حق نہیں رکھتی کہ اس میں تبدیلی کرسکے۔

اسلام میں کوئی ایسا حکم نہیں جس میں تین بار طلاق کا لفظ کہہ کر علیحدگی اختیار کی جائے۔ اگر کوئی قانون کا غلط استعمال کرتا ہے یا اس کی غلط ترجمانی کرتا ہے تو اس کے خلاف ایکشن لینا قانون کا کام ہے نہ کہ اس کو اسی صورت میں نافذ کردینا۔ 2002 میں شمیم آرا کیس میں عدالت نے یہ فیصلہ سنایا تھا کہ بیک وقت طلاق، طلاق، طلاق کہنے سے طلاق نافذ نہیں ہوگی اور اب جب کہ سپریم کورٹ قانونی طور پر بیک وقت تین طلاق پر پابندی لگا چکی ہے، طلاق پر مزید پابندی کا سوال کہاں سے باقی رہ جاتا ہے۔ ایک اہم بات یہ کہ جب عدلیہ ہندو پرسنل لا یادیگر پرسنل لاز میں مداخلت کا حق نہیں رکھتی تو مسلم پرسنل لا میں مداخلت کیسے کرسکتی ہے۔

پردے کے پیچھے سے برسر اقتدار گروہ سیاسی چالیں چل رہا ہے اور اس کے لیے وہ مسلم پرسنل لا، بچپن کی شادی تعدد ازدواج، وراثت اور تین طلاق کے مسئلے کو بار بار اٹھا رہا ہے جب کہ اگر ہم ان اعداد و شمار کا جائزہ لیں جو مردم شماری کے بعد سامنے آئے ہیں تو اندازہ ہوگا کہ مسلمانوں میں طلاق کی شرح خاص طور پر اور ان واقعات کی شرح عام طور پر ہندوؤں اور دیگر مذہبی اکائیوں کے مقابلے کافی کم ہے۔ آپ کو یہ جان کر حیرت ہوگی کہ طلاق شدہ خواتین میں 68 فیصد تعداد ہندو خواتین کی ہے جب کہ محض 23 فیصد مسلم ہیں۔ یہ اعداد و شمار مردم شماری 2011 کے ہیں۔

اسی طرح ایک سے زیادہ شادیوں کا معاملہ ہے۔ یہ بات عام آدمی کے لیے حیرت انگیز ہے کہ ہندو میریج ایکٹ کے لا گو رہنے اور ہندو مرد کو دوسری شادی نہ کرنے کے قانون کے باوجود ملک میں ہندو مردوں میں دوسری شادی کرنے والوں کی رتعداد مسلمانوں سے زیادہ ہے۔

طلاق کو مسلم عورت پر ظلم کے ایشو کے طور پر اٹھایا جاتا ہے جب کہ عورت پر ظلم و زیادتی کے دوسرے اہم ایشوز جیسے جہیز کے لیے ستایا جانا، دلہن سوزی خواتین کی خرید و فروخت اور اسمگلنگ جیسے خطرناک اور قبیح ایشوز کو بہ طور ظلم اٹھایا جانا چاہیے۔ بہت سے دیگر مسائل ہیں جن کا تعلق بھی خواتین کو انصاف کی فراہمی اور عوامی اخلاقیات سے ہے، مگر نہ صرف ان پر پابندی نہیں لگائی جاتی بلکہ انہیں پروان چڑھایا جا رہا ہے۔ مثال کے طور پر شوہر و بیوی کے دیگر مرد و خواتین سے تعلق، لیو اِن رلیشن شپ اور سیم سیکس میریج جیسی ملعون چیزوں کو ختم کیوں نہیں کیا جاتا جو کسی بھی مذہب کے خلاف ہونے کے ساتھ ساتھ اجتماعی اخلاقیات کے بھی برعکس ہیں۔ ایسے میں مذہبی پرسنل لا کا مذاق اڑایا جا رہا ہے۔

ہندوستان کے قانون میں قتل او رزنا سنگین جرم ہیں لیکن انہیں روکنے میں ناکام رہنے کا مطلب یہ نہیں کہ انہیں جائز قرار دے دیا جائے جیسا کہ اوپر والے اخلاقی جرائم کے سلسلے میں ہو رہا ہے۔ اس کے بالکل برخلاف اور غیر عقلی و ناانصافی پر مبنی رویہ طلاق کے سلسلے میں اختیار کیا جا رہا ہے جو اسلامی قانون میں ہے یعنی شریعت جس کی اجازت دیتی ہے۔ صنفی مساوات او رحق و عدل قائم رکھنے کے لیے عورت کے پاس خلع کا حق ہے۔ اگر وہ چاہے تو اپنا حق ثابت کر کے مرد سے خلع لے سکتی ہے۔

آخری اور مضبوط بات یہ ہے کہ طلاق اور ایک سے زیادہ شادی کی روایت مسلمانوں سے زیادہ ہندوؤں اور دیگر لوگوں میں ہے لیکن فرقہ پرست عناصر لوگوں کے ذہنوں کو مذہبی بنیادوں پر تقسیم کرنے کے لیے یونیفارم سول کوڈ کو اٹھا کر مفادات کی روٹیاں سیکنا چاہتے ہیں اور سینکتے رہے ہیں۔ وہ اس مسئلہ کو ہر طرح سے اپنے مقصد کے حصول کے لیے آلہ کار کے طور پر استعمال کرتے رہے ہیں۔

مسلمانوں کو چاہیے کہ وہ آگے بڑھ کر لوگوں کے سامنے حقیقت کو پیش کریں اور قانون شریعت کی تفہیم کرتے ہوئے اس کی حکمت اور بالادستی ثابت کریں۔ اسی طرح ملک کے وسیع تر مفاد میں اس کا بھی گہرائی سے مطالعہ ہونا چاہیے کہ یونیفارم سول کوڈ کی صورت میں خواتین کے حقوق کا کتنا اتلاف ہوگا اور یہ کس حد تک ہمارے سماج کے لیے سود مند ثابت ہوگا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں