مسلم پرسنل لا کی حمایت میں برپا ہونے والی مہمات کے دوران بعض بزرگوں نے ایک بار کی تین طلاقوں کی غیر ضروری طور پر زور دار وکالت کی، ایک بار کی تین طلاقوں کی مدافعت میں ان بزرگوں نے جوشیلی تقریریں کیں، اور اس عمل کو عورت کے حق میں مفید ثابت کرنے کے لیے ایڑی چوٹی کا زور لگادیا۔
سب سے اہم دلیل جو ہمارے یہ بزرگ اپنی تقریروں اور تحریروں میں دیتے ہیں، وہ یہ ہے کہ اگر ظالم شوہر اپنی بیوی کو ایک ہی بار میں تین طلاقیں دے دے تو عورت کو اس سے فوری چھٹکارا مل جاتا ہے، نہ اس کا اندیشہ رہتا ہے کہ کہیں وہ ظالم شوہر عدت میں رجوع نہ کرلے، اور نہ اس کے گھر میں عدت گزارنا ضروری ہوتا ہے۔
گویا ظالم شوہر سے نجات پانے کا بیوی کے پاس کوئی اور راستہ نہیں ہے، صرف ایک ہی راستہ ہے، اور وہ یہ ہے کہ ظالم شوہر کبھی انجانے میں غلطی سے ایک بار میں تین طلاقیں دے دے، اور یہ تین طلاقیں عورت کے لیے رحمت اور نجات کا پروانہ بن جائیں۔
تشویش کی بات یہ ہے کہ ہمارے سادہ لوح بزرگوں کی ان تقریروں کے بعد تو یہ ظالم شوہر بھی ہوشیار ہوگئے ہوں گے، اور کوئی دوسرا تین طلاقوں سے باز آئے یا نہ آئے، وہ ضرور محتاط ہوجائیں گے، اور تین طلاق نہیں دیں گے، تاکہ ان کی بیویاں اس وقت تک ظلم کی چکی میں پستی رہیں، جب تک وہ پیسنا چاہیں۔
سوال یہ ہے کہ کیا ظالم شوہر سے نجات پانے کا کوئی راستہ بیوی کے پاس نہیں ہے؟یہ بہت اہم سوال ہے۔ میرے مشاہدے کی حد تک ہمارے سماج میں طلاق دینے کے ظلم سے بڑا اور سنگین مسئلہ طلاق نہیں دینے کا ظلم ہے۔ طلاق دینے کی صورت میں وہ بے سہارا ضرور ہوجاتی ہے، لیکن اسے نیا شریک سفر اور نیا سہارا ملنے کا امکان بھی نظر آتا ہے۔ مگر جو عورت کسی ظالم شوہر کے تسلط سے باہر نہیں نکل پاتی ہے اس کے سامنے تو دنیا تاریک اور زندگی ایک عذاب مسلسل کے سوا کچھ نہیں ہوتی۔
ہمیں طلاق دینے کے مسائل پر ضرور غور کرنا چاہئے، لیکن طلاق نہیں دینے کے مسائل پر اور زیادہ غور کرنا چاہئے۔
ظالم شوہر سے نجات حاصل کرنے کا راستہ طلاق ہے ہی نہیں، طلاق کے ذریعہ تو شوہر اس بیوی سے نجات حاصل کرتا ہے جس کے ساتھ وہ نباہ نہیں کرپاتا ہے۔ ظالم شوہر سے نجات حاصل کرنے کا طریقہ یہ ہے کہ خاندان اور محلے کے با اثر لوگ بیوی کے مطالبہ کو سنجیدگی سے سنیں، اور معاملہ سمجھنے اور صورت حال سے آگاہی حاصل کرنے کے بعد رشتے کے ختم کردیے جانے کا اعلان کردیں۔
افسوس کہ ہماری فقہ میں اس صورت حال سے نپٹنے کے لیے واضح ہدایات موجود نہیں ہیں، جس طرح ظالم حکمراں سے نجات حاصل کرنے کے سلسلے میں واضح ہدایات نہیں ہیں۔ لیکن یہ بات مسلم ہے کہ شریعت میں ظلم کے لیے کوئی گنجائش نہیں ہے، یہ نہیں ہوسکتا کہ کہیں پر ظلم ہورہا ہو اور شریعت کی طرف سے خاموشی اختیار کی جائے، اور ظلم سے نجات پانے کا کوئی راستہ نہیں بتایا جائے۔ جس طرح عوام کو تلقین کی جاتی ہے کہ وہ حکمرانوں کے ظلم پر صبر سے کام لیں، اسی طرح بیوی کو نصیحت کی جاتی ہے کہ وہ ظالم شوہر کے ظلم پر صبر کرتی رہے۔ اس طرز عمل سے ظلم کی ہمت افزائی ہوتی ہے، اور مظلوم کی دل آزاری ہوتی ہے۔
ہماری عدالتیں جسم پر ظلم کے نشانات کو ظلم کا ثبوت قرار دیتی ہیں، جبکہ کوئی ضروری نہیں ہے کہ ظلم کے نشانات جسم پر ظاہر ہوں۔ ظلم جسم پر بھی ہوتا ہے اور دل ودماغ پر بھی ہوتا ہے، ہر طرح کے ظلم سے نجات کے راستے سجھانا علمائے شریعت کی ذمہ داری ہے، اور ہر طرح کے ظلم سے بچانے کی تدبیریں اختیار کرنا سماج کے با اثر لوگوں کا فرض ہے۔
اگر ظالم شوہر بیوی کے مطالبے کے باوجود اسے خلع دینے پر راضی نہ ہو تو اس پر ہر طرح کا اخلاقی دباؤ ڈالا جائے، اور اگر وہ خلع دینے کے بدلے کسی رقم کا مطالبہ کرے، اور بیوی کے پاس خلع کے لیے مطلوبہ رقم موجود نہ ہو تو لوگ اس رقم کا انتظام کریں، یہ دونوں کام خدمت خلق کے اہم کام ہیں۔ غرض معاشرے میں ظلم کی کسی صورت کا پایا جانا، اور لوگوں کا خاموش رہنا بہت خراب علامت ہے۔lll