عالمی یومِ خواتین اور ہمارا ایجنڈا

شمشاد حسین فلاحی

۸؍ مارچ یعنی عالمی یوم خواتین کے موقع پر میڈیا میں خواتین سے متعلق امور اور اشوز پر مختلف النوع رپورٹیں اور خبریں پڑھنے کو ملتی ہیں اور ان کا مقصد یہ ہوتا ہے کہ دنیا بھر میں عوام کو خواتین کے حقوق اور امپاورمنٹ سے متعلق باخبر اور بیدار کیا جائے۔ لوگوں کو ان کے احترام اور مساوی حق کی تلقین کرتے ہوئے خواتین کو آگے بڑھنے کا حوصلہ عطا کیا جائے اور انہیں خود کفیل اور بااختیار بنانے کی کوششوں کو مہمیز دی جائے۔

یہ کوشش اس حیثیت سے قابل ستائش اور قابل قدر ہے کہ عورت پوری دنیا کے ہر سماج میں مظلوم اور پسماندہ ہے، محروم اور مجبور ہے اور عملاً پوری دنیا میں اسے وہ مواقع اور حقوق و اختیارات میسر نہیں جو بہ حیثیت انسان اس کا حق ہیں اور سماجی و معاشرتی ناہمواری کے خاتمہ کے لیے ضروری ہیں۔ اور اس میں مشرق و مغرب کی کوئی تفریق نہیں جہاں وہ آزاد ہے وہاں بھی وہ ظلم و ستم کا نشانہ ہے اور جہاں اسے ’آزادی‘ حاصل نہیں وہاں کا تو ذکر ہی کیا۔

لیکن ان تمام کوششوں میں جو چیز بہت واضح طور پر سامنے آتی ہے وہ یہ ہے کہ عالمی یوم خواتین کے سلسلہ کی تمام تر کوششیں اور جدوجہد ایک خاص رخ پر کی جا رہی ہے اور ان کا حقیقی ہدف خواتین کو ترقی دینے اور بااختیار بنانے کے ساتھ ساتھ ایک خاص ایجنڈے کو آگے بڑھانا ہے۔ اور یہ ایجنڈا واضح طور پر خواتین کی آزادی و مساوات کے اس تصور کا فروغ ہے جو مغربی دنیا اپنی تہذیب و ثقافت اور اپنے مادہ پرستانہ نظامِ زندگی کے تناظر میں رکھتی ہے۔ اس ایجنڈے کا لب لباب یہ ہے کہ وہ عورت کو معاشی زندگی میں کھینچ کر لانا چاہتا ہے اور اسے ملکوں کی صنعتی و تجارتی ترقی میں اسی طرح سرگرم اور فعال بنانا چاہتا ہے جس طرح مرد فعال اور سرگرم ہے۔مغربی دنیا کے خواتین کی ترقی، بیداری اور مساوات کے ایجنڈے کا یہی نقص ہے جو تمام تر کوششوں کے باوجود عورت کو تحفظ، احترام اور عزت و وقار فراہم کرنے میں ناکام ہے۔ چناں چہ ہم دیکھ رہے ہیں کہ یہ ایجنڈا جوں جوں دنیا میں آگے بڑھ رہا ہے ویسے ویسے خواتین کے مسائل میں اضافہ ہو رہا ہے اور ان کا تحفظ، سکون و اطمینان اور عزت و وقار داؤ پر لگتا محسوس ہوتا ہے۔ اس کے ثبوت کے طور پر ہم دنیا بھر میں خواتین کے خلاف تیزی سے بڑھتے جرائم، ٹوٹتے بکھرتے خاندان اور تحفظ اور امن کی بگڑتی صورت کو پیش کر سکتے ہیں۔ اس کے لیے خود ہمارا اپنا سماج بھی دلیل بن سکتا اور مشرق و مغرب کے دیگر معاشرے بھی۔

اس موقعے پر ہم اس صورتِ حال اور عالمی یومِ خواتین کے ایجنڈے کو آگے بڑھانے والی طاقتوں کا محاکمہ کیے بغیر اسلام پسند خواتین سے کہنا چاہیں گے کہ وہ اس بات پر سوچیں کہ خواتین کی ترقی اور تقویت کے نام پر اپنے تہذیبی ایجنڈے کو آگے بڑھانے والی طاقتوں سے زیادہ وہ اس بات کی حق دار بلکہ ذمہ دار ہیں کہ خواتین کی ترقی و امپاورمنٹ کے ایجنڈے کو آگے بڑھائیں اس لیے کہ ان کا ایجنڈا اور ان کی فکر ان کے مقابلہ میں زیادہ تعمیری، پرکشش اور خواتین کے حقوق و اختیارات کی وکالت کرنے والی اور انہیں تحفظ و احترام فراہم کرنے والی ہے۔ ہمیں اس بات پر مکمل شرح صدر ہے کہ اسلام ہی خواتین کے عزت و وقار اور ان کی ترقی و تحفظ کا ضامن ہے۔

اس لیے اسلام پسند خواتین کو چاہیے کہ وہ اس موقع کو اسی طرح سے اپنے ایجنڈے کو آگے بڑھانے کے لیے بھی اور اسلام اور مسلم عورت کی پوزیشن کو دنیا کے سامنے لانے کے لیے بھی ایک موقع کے طور پر استعمال کریں۔ اب اگرچہ یہ موقع گزر چکا ہے مگر یہ دقت ہے کہ آئندہ کے لیے ابھی سے منصوبہ بندی کی جائے اور اپنے نظریاتی موقف کو دنیا کے سامنے پیش کرنے کے لیے درکار قوت مجتمع کی جائے اور افراد کار کی بھرپور تیاری کے ساتھ دنیا کے سامنے اس نظریے کو پیش کیا جائے جو حقیقت میں خواتین کے مسائل کا حل ہے اور جس کے بارے میں ہمارا یقین ہے کہ وہی ان کو حقیقی آزادی و عزت فراہم کرسکتا ہے۔

اس سلسلہ میں ایک اہم مسئلہ یہ درپیش ہوتا ہے کہ زمانہ عورت کے سلسلہ میں جب اسلام کے موقف پر تنقید کرتا ہے تو ہمارے معاشروں میں عورت کی موجودہ پوزیشن کو نظیر اور مثال کے طور پر پیش کرتا ہے۔ اس کا یہ کہنا کسی حد تک درست ہے کیوں کہ مسلمان بھی انہی معاشروں کا حصہ ہیں جن میں غیر مسلم رہتے ہیں۔ اس حیثیت سے جو کیفیت دیگر معاشروں میں عورت کی ہے وہی حیثیت مسلم عورت کی بھی نظر آتی ہے۔ کیوں کہ وہ اپنے معاشرے کی عورت کو ممتاز اور مختلف انداز پیش کرنے میں ناکام ہے۔ اس حقیقت کو تسلیم کرتے ہوئے ہمیں اس بات کی کوشش کرنی چاہیے کہ ہمارے یہاں عورت کی حیثیت اور اس کے حالات دوسرے معاشروں سے مختلف اور ممتاز ہوں اور ان میں اسلام کی تعلیمات کی واضح جھلک نظر آئے، تاکہ ہم اپنے سماج کو اسلام کا نمونہ بنا کر پیش کرسکیں۔ اس ضمن میں بات کرتے ہوئے ہمیں اپنے ذہنی سانچوں کو بھی درست کرنے کی فکر کرنی چاہیے کہ ہم سماجی و معاشرتی روایات کے بجائے اسلام کی تعلیمات اور سیرت رسول کو اسوہ تسلیم کریں۔ مغرب سے ہمارا واضح اختلاف اسی بات کو لے کر ہے کہ وہ عورت کو معاشی جدوجہد میں جھونک دینا چاہتا ہے جب کہ اسلام معاشی جدوجہد کی ذمہ داری مرد پر ڈال کر اسے ایک گونہ سکون و اطمینان فراہم کرتا ہے جس کا یہ مطلب ہرگز نہیں ہے کہ وہ معاشی جدوجہد کے لیے نااہل ہے یا اسے اس کی اجازت نہیں۔ اسلام جہاں اسے اس ذمہ داری سے بری رکھتا ہے وہیں اسے اس بات کی آزادی بھی دیتا ہے کہ وہ حسب حالات و مقتضیات معاشی جدوجہد کا حصہ بن سکے۔ اسلام کا امتیاز یہ ہے کہ وہ عورت کو اگر معاشی جدوجہد کا حصہ بناتا ہے تو اس کے لیے مناسب ماحول مردوں کو ان سے معاملات کرنے کی خاص ہدایات اور وہ تمام تحفظات فراہم کرتا ہے جو موجودہ تہذیب فراہم کرنے میں نہ صرف ناکام ہے بلکہ وہ اس چیز کو درخور اعتنا ہی تصور نہیں کرتی۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے معاشرہ میں تمام تر آزادی و مساوات کے باوجود عورت مجبور اور مظلوم ہے۔

اسلام کا نظریہ آزادی و مساوات مغرب کے نظریہ آزادی و مساوات سے کہیں زیادہ وسیع اور عملی ہے مگر ہم اس نظریے کو نہ تو اپنے سماج میں اتار سکے ہیں اور نہ ہی اس کی ہمہ گیریت و افادیت ابھی ہمارے اپنے ذہنوں میں سما سکی ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنے سماج اور اپنے گھروں کو اسلامی تعلیمات کی بنیاد پر استوار کریں اور پھر دنیا کے سامنے ایک ماڈل کے طور پر پیش کریں۔ اگرایسا نہ کرسکے تو دنیا ہم سے ماڈل مانگتی رہے گی اور ہم اسے تھیوری بتاتے رہیں گے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں