عالمی یومِ خواتین

شمشاد حسین فلاحی

8؍مارچ کو پوری دنیا عالمی یومِ خواتین کے طورپر مناتی ہے۔ اس دن خواتین کے کارناموں اوران کی کارکردگی کو سراہا جاتا ہے اور ان کے لیے مساوات اور بہتر سماج اور اچھے حالات کے لیے کوششوں اور ماحول سازی کی بات کی جاتی ہے۔ میڈیا میں ہر طرح کی رپورٹیں شائع ہوتی ہیں اور عالمی سطح پر خواتین کے حقوق کے لیے بیداری کی کوشش ہوتی ہے۔ یہ سلسلہ 1908 میں امریکہ سے شروع ہوا اور دھیرے دھیرے پوری دنیا میں پھیل گیا۔ اگر اس کے تناظر اور سیاق و سباق کی بات کی جائے تو یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ سب صنعتی ترقی یا انڈسٹریالائزیشن کے دور میں ہوا جہاں سائنسی ترقی بھی ساتھ ساتھ چلتی رہی ہے۔

انٹرنیشنل کانفرنس آف ورکنگ وومن جو کوپن ہیگن میں 1910میں منعقد ہوئی تھی، اس میں جرمن خاتون ’’کلارا زیٹ کن‘‘ نے خواتین کے لیے عالمی دن منانے کاتصور پیش کیا جس کے نتیجے میں اگلے سال 1911 میں آسٹریا، ڈنمارک، جرمنی اور سوئٹزرلینڈ نے 19؍مارچ کو یوم خواتین منایا۔1975 میں اقوامِ متحدہ نے پہلی بار یہ دن منایا اور 1977 میں اقوامِ متحدہ نے یہ قرار داد پیش کی کہ خواتین کے حقوق اور عالمی امن کے لیے ممبر ممالک اپنی اپنی سہولت سے ایک دن منائیں۔ کچھ ملکوں میں اسے فروری کے آخری اتوار کو منایا جاتا رہااور اب عالمی یکسانیت کے لیے 8؍مارچ کو منایا جاتا ہے۔اس طرح اس کی تاریخ ایک صدی سے کچھ زیادہ مدت پر پھیلی ہوئی ہے۔

اس مدت میں دنیا نے سماجی، معاشرتی اور سائنسی ترقی کا ایک طویل، حیرت انگیز اور قابلِ رشک و وجۂ تشویش سفر طے کیا ہے۔ اس مدت میں خواتین اور خواتین تحریکات کی بڑی حصولیابیاں ہیں، بڑے کارنامے ہیں اور خواتین کو حالات کے جہنم سے نکالنے میں ان تحریکات نے قابلِ قدر رول ادا کیا ہے۔ آپ خود اندازہ لگائیں کہ اب سے ایک سو بارہ سال پہلے جب 1908 میں امریکہ کے شہر نیویارک میں 1500 خواتین جمع ہوئیں (اور اسے ہی اس عالمی دن کی اساس مانا جاتا ہے) تو ان کا ایجنڈا تھا کہ خواتین سے مردوں کے مقابلے کم کام لیا جانا چاہیے اور ان کے وقات کار کم ہونے چاہئیں اور انھیں بھی مردوں کی طرح حکومت سازی میں ’’ووٹ کا حق‘‘ ملنا چاہیے۔ خواتین کے لیے اوقاتِ کار میں کمی اور ووٹ کے حق سے شروع ہونے والی یہ تحریک اب ’’میرا جسم -میری مرضی‘‘ کے مرحلے تک پہنچ گئی ہے۔ آپ خود اندازہ کریں تو لگے گا کہ خواتین نے بہت کچھ حاصل کیا ہے۔ اس نے جنگیں لڑیں اور جیتی ہیں اور کل ملا کر بہت طویل جنگ لڑی ہے اور جیتی ہے۔ اس پوری مدت میں ہم نے دیکھا کہ اس سوچ کی بڑی کامیابی یہ ہے کہ آج دنیا بھر میں خواتین میں تعلیم کا فروغ ہوا ہے۔ وہ پڑھ لکھ کر اعلیٰ عہدوں تک پہنچی ہیں اور پہنچ رہی ہیں اور سب سے بڑھ کر خواتین کے حقوق کی بات کرنا اب عام بات ہے اور کہیں بھی کوئی بھی اس کی مخالفت کی جرأت نہیں کرسکتا۔

عالمی یومِ خواتین نے موجودہ عالمی سماج میں، خواتین کے حقوق اور معاشرہ میں باعزت اور مردوں ہی کی طرح یکساں مقام دلانے اور اس سلسلے میں بیداری پیدا کرنے میں ہم رول ادا کیا ہے۔ اس دن کے، جو اب خواتین کے لیے مساوات اور ان کے حقوق کی علامت کے طور پر دیکھا جاتا ہے، معاشرے پر بے شمار مثبت اثرات مرتب ہوئے ہیں جیسا کہ اوپر عرض کیا گیا، لیکن اس پوری تحریک نے کچھ منفی اثرات بھی ڈالے ہیں۔ ان منفی اثرات کا سبب حقیقت میں یہ تحریک نہیں بلکہ اس کے پیچھے وہ سرمایہ دارانہ سوچ تھی اور ہے، جس نے بڑی ہوشیاری سے اسے اپنے دام میں لے کر اپنے ایجنڈے کے حصول کے لیے استعمال کیا۔ اسی کا نتیجہ ہے کہ جہاں جہاں اور جن جن ممالک میں اس تحریک نے جھنڈے گاڑے وہاں وہاں خاندانی نظام ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہوا۔ وجہ صاف ہے اور وہ ہے عدم توازن اور اعتدال کی راہ سے دوری۔

ہم یہی چاہتے ہیں کہ سماج میں مرد و خواتین کو یکساں مقام حاصل ہو اور محض جنس کی بنیاد پر مرد و عورت کے درمیان کسی بھی قسم کی سماجی و معاشرتی تفریق روا نہ رہنی چاہیے۔ ہمارے خیال میں کوئی معاشرہ اس وقت تک حقیقی طور پر پُرامن، ترقی یافتہ اور پرسکون نہیں ہوسکتا جب تک اس معاشرےکی عورت مامون، مطمئن اور معاشرے کی تعمیر میں اپنی حصہ داری ادا نہ کرے۔ جہاں یہ لازم ہے وہیں یہ بھی ضروری ہے کہ معاشرہ میں مرد اورعورت کے درمیان کشمکش اور حقوق کی جنگ نہ لڑی جارہی ہو بلکہ باہمی اعتماد اور ہم آہنگی قائم ہو۔ بدقسمتی یہ ہے کہ موجودہ معاشروں میں عورت کے حقوق اور مساوات کے لیے جدوجہد کے باوجود یہ کشمکش کی کیفیت کم نہیں ہورہی ہے۔

اس کے لیے ایک مثالی طریقۂ کار اور ایک ماڈل سماج کا عملی خاکہ اسلام نے پیش کیا تھا اور اس کے رسول نے اسی عملی شکل میں قائم کرکے دکھایا تھا مگر وہ ماڈل اور طریقۂ کار خود اسلام کے ماننے والوں نے فراموش کردیا اور اب وہ کسی بھی سماج میں نظر نہیں آتا۔ خواتین کے عالمی دن کے اس تناظر میں جو سال کے 365 دنوں میں سے صرف ایک دن ہے، ہم مسلم سماج کو اس طرف متوجہ کرنا چاہتے ہیں کہ وہ اپنے یہاں خواتین کے ان حقوق کی بازیابی یا فراہمی کے لیے اسی طرح کی کوششوں کی شروعات کرے کہ ان کے یہاں خواتین کو وہ تمام حقوق دیے جانے کی مہم چلے جو اسلام نے خواتین کو فراہم کیے ہیں مگر مسلم سماج کی بے علمی اور بے خبری نے ان پر قبضہ جما رکھا ہے۔ ہمارے خاندانوں اور معاشروں میں بھی جنسی تفریق اسی طرح ختم ہو جس طرح رسول پاکؐ نے ختم کردی تھی۔

ہمارے ساتھ دشواری یہ ہے کہ نظریاتی طور پر اسلام کو خواتین کے حقوق اور جنسی مساوات کا چیمپئن باور کراتے ہیں، اور حقیقت میں ایسا ہی ہے بھی مگر عملی زندگی میں ایسے معاشرے نایاب اگر نہیں ہیں تو کم یاب ضرور ہیں۔ ایسا صرف اس وجہ سے ہے کہ ہم اسلام کی تعلیمات کو اپنی معاشرتی اور عملی زندگی میں نافذ نہیں کرپارہے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ خواتین کے عالمی دن کو عالمی سطح پر منانے کے ساتھ ہی ہم سے خاندان اور گھر کی سطح پر بھی عملاً منانے کی مہم چلائیں۔ یہ تمام معاشروں کے لیے انتہائی ضروری ہے اور مسلم معاشرے کے لیے تو اسی طرح فرض ہے جس طرح نماز، روزہ اور حج و زکوٰۃ جیسی عبادات۔ اگر یہ تصور ہمارے ذہن میں پختہ ہوگیا تو ہم دنیا کے سامنے ایک ایسا اسلامی خاندان اور معاشرہ پیش کرسکیں گے جو مثالی ہوگا اور جس میں کوئی عورت مظلوم، مقہور اور پسماندہ نہ رہے گی۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں