عالی جاہ

نجیب محفوظ

وہ زمین سے پیدا ہوا۔ خودرو جنگلی گھاس کی طرح اگا اور بڑھا۔ نامعلوم پس منظر سے ابھرا۔ میلے کچیلے گندے ہاتھوں سے اس کی تربیت ہوئی۔ یہ ہاتھ جو اسے روٹی کا لقمہ کھلاتے، پہننے کو کپڑا دے دیتے اور اس کی انسانیت سلب کرلیتے۔

پھر ایک روز، جب وہ جوان ہوچکا تھا، ایک راہ گیر نے اس کی طرف اشارہ کیا اور ہنستے ہوئے اونچی آواز میں اپنے ساتھی کو مخاطب کرکے کہا:

’’ذرا دیکھو تو، یہ شخص تو بالکل بادشاہ کا ہم شکل ہے۔‘‘

بادشاہ! اسے اتنا پتہ تھا کہ اس ملک کا کوئی بادشاہ بھی ہے۔ دور سے اس نے اس کی شاہی سواری کی جھلک بھی دیکھی تھی۔ مگر اس شخص کے کہنے کا مطلب کیا تھا۔ پھر جب ایسے ہی اشارے بار بارہونے لگے اور حیران نظریں اسے بار بار گھورنے لگیں تو وہ سوچنے پر مجبور ہوگیا۔

’’کیا میری شکل و صورت واقعی بادشاہ جیسی ہے؟ اس وجود میں ایسا ہونا بھی ممکن ہے؟‘‘

پھر وہ شارع ازہر کی پہلی دکان ہی میں آویزاں قد آدم آئینے کی طرف دوڑ کر گیا اور اپنی صورت کو غور سے دیکھنے لگا۔ ’’اچھا تو یہ ہے بادشاہ۔‘‘ لباس کی بوسیدگی اور چہرے کی غلاظت نے اس کا کچھ بھی تو نہیں بگاڑا تھا۔

پھر وہ چہرہ صاف کرکے رکھنے لگا اور بالوں کو سنوارنے لگا اور طول و عرض میں سڑکوں کو ماپنے لگا تو اسے کامیابیوں پر کامیابیاں نصیب ہونے لگیں۔ اشارے اور تبصرے اس کے کانوں میں رس گھولنے لگے اور وہ اپنی نفیس شکل و صورت کے ساتھ مسکراتا خوش ہوتا پھرتا۔

دن گزرنے کے ساتھ ساتھ علاقے بھر میں وہ ’’عالی جاہ‘‘ کے نام سے پہچانا جانے لگا۔’’عالی جاہ! جلالت مآب۔‘‘

کچھ تمسخر آمیز شکوک و شبہات اس عجیب و غریب مشابہت کا رشتہ والد شاہ کی جنسی آزاد روی سے ملانے لگے۔ ’’کون جانے شاید… ‘‘، ’’ممکن ہے کہ …‘‘ اس میں عجب کیا ہے اگر …‘‘ اس طرح مذاق ہی مذاق میں یا ر لوگوں نے اسے محمد علی کے خاندان کے زرد ممتاز خون سے جوڑ دیا۔

وہ خود اپنے ماں یا باپ کے بارے میں کچھ نہیں جانتاتھا۔ وہ بالکل ننگا یا کسی کپڑے کے ٹکڑے میں لپٹا کھلی زمین پر پڑا پایا گیا تھا۔ اور اپنی شاندار نامعلوم اصلیت کے بارے میں گھومنے والے شکوک و شبہات کی طرح آوارہ گھومتا رہا اور اپنی اس عجیب وغریب مشابہت سے برآمد ہونے والے نتائج کی بہتری کا منتظر رہنے لگا۔ اور حقیقت تھی بھی کچھ اس طرح کہ اس مشابہت نے اسے اکثر پولیس کے ڈنڈوں اور آوارہ گردی کی مصیبتوں سے بچا لیا تھا۔ چنانچہ وہ محفوظ ترین آوارہ گرد اور پناہ یافتہ اچکا تھا۔ اس کے ساتھی اس سے کہا کرتے تھے: ’’جب قسمت تم پر مہربان ہو تو ہمیں فراموش نہ کردینا۔‘‘ وہ ہمیشہ جواب میں دوستی نباہنے کے وعدے کرتا اور اکثر اپنے خوابوں اور ان کی ممکنہ تعبیر کے متعلق سوچتا رہتا۔ ہوتے ہوتے اس کی شہرت پولیس کے متعلقہ شعبے تک جاپہنچی۔ ماہرین نے اسے اچھی طرح دیکھا، جانچا پرکھا اور رپورٹ پیش کی کہ قدوقامت، شکل و صورت، رنگ و روپ؟ یہ تو کوئی معجزہ معلوم ہوتا ہے۔‘‘

پولیس چیف نے خود اسے دیکھنے کا فیصلہ کیا اور جب وہ اس کے سامنے آکر کھڑا ہوا تو حیران ہوکر رہ گیا۔ پھر جب وہ چلا گیا تو چیف نے محسوس کیا کہ یہ کوئی حقیقی مصیبت ہی ثابت نہ ہو۔ کیا اسے محض ایک تمسخر سمجھ کر نظر انداز کردینا درست ہوگا؟ کیا اس پر نگرانی مقرر کردی جائے اور پھر اسے فریب کاری اور دھوکا دہی میں گرفتار کرلیا جائے؟ اسے کوئی حل بھی درست نظر نہیں آرہا تھا۔ بڑی سوچ بچار کے بعد اس نے مناسب سمجھا کہ سارا معاملہ وزارت داخلہ کے سامنے پیش کیا جائے۔ وہاں ایک افسر سے اس کا ذاتی رابطہ تھا۔ اس سے مدد لینی چاہیے۔

چھان بین اور تحقیق نئے سرے سے شروع ہوگئی۔ امن و امان کے اعلیٰ ادارے بھی الجھ کر رہ گئے اور یہ معاملہ انتہائی سنجیدہ اور اہم قرار دیا جانے لگا۔

’’ہوسکتا ہے کہ بعد میں نامعلوم پیچیدگیاں ابھر کر سامنے آئیں اور پھر ہم سے پوچھا جائے کہ تم کہاں تھے صاحب بہادرو؟‘‘

آخر کار فیصلہ ہوا کہ اسے امن و امان میں خلل انداز ہونے والوں میں شامل سمجھا جائے اور اس طرح اسے گرفتار کرکے پابند سلاسل کردیا جائے۔ یوں یہ قصہ تمام ہوا اور ’’فاروق ثانی‘‘ سے جان چھڑا کر دلوں کو اطمینان نصیب ہوا اور پھر وہ ذہنوں سے تقریباً اتر ہی گیا۔

پھر ’’انقلاب جولائی‘‘ وقوع پذیر ہوا۔ گزرے ہوئے زمانے پر ہتھوڑے برسنے لگے۔ ایک صحافی نے معزول بادشاہ کے فراموش شدہ ہم شکل کا پورا قصہ لکھ ڈالا اور اس طرح اسے قید و بند سے رہائی نصیب ہوئی اور وہ پھر اپنی آوارہ گردی اور پریشان حالی کے صحرا میں واپس لوٹ آیا۔

وہ واپس لوٹا مگر اس بار اس کے حسین خواب اس کے ساتھ نہیں تھے البتہ آزادی کی نعمت کو اب اس نے حقیقی طور پر محسوس کیا تھا اور اس حال پر اللہ کا شکر بجالاتا تھا پھر ایک اخبار نے اس کی تصویر شائع کی، تو اسے وہ شہریت نصیب ہوئی جو کبھی اس کے وہم و گمام میں بھی نہ گزری تھی۔

ایک فلم ساز ادارہ انقلاب سے پہلے کی ابتری اور فتنہ دکھانے کے لیے فلم بنانے کا ارادہ رکھتا تھا۔ اسے تمام فساد اور ابتری کے پیچھے بیٹھے شاہ کا کردار ادا کرنے کے لیے کسی ایکٹر کی ضرورت تھی۔ اخبار میں تصویر نے ان کے لیے راہ ہموار کردی۔ انھوںنے اسے آزمایا، تو وہ بالکل موزوں ثابت ہوا۔ قدرتی مشابہت اور انداز و اطوار نے شاہ کا کردار قدرتی طور پر ادا کرنے میں اسے کوئی مشکل نہ ہونے دی۔ جب فلم مارکیٹ میں آئی تو اس کی شہرت میں اور بھی اضافہ ہوگیا۔ اگرچہ اس شہرت سے اس کے لیے زیادہ کامیابی کا کوئی راستہ نہ کھل سکا نہ ہی اس کی فطری صلاحیتوں کا اندازہ کیا جاسکا۔

ارباب اختیار کی توجہ بھی اس طرف ہوئی اور انھوں نے محسوس کیا کہ یہ شخص ضرورت سے زیادہ ہی شہرت لے رہا ہے اور اخبارات و جرائد میں اس کی تصاویر بھی غیر معمولی انداز میں آرہی ہیں۔ اس طرح کوئی ایسی دقت بھی سامنے آسکتی ہے جو انسان کے ذہن میں شاید ابھی تک نہ آئی ہو۔ ایک دور بین شخص نے رائے دی:

’’ہمارے عوام بڑے معصوم ہیں۔ ہوسکتا ہے کچھ لوگ سابق بادشاہ کو اس کی برائیوں اور نقائص کے باوجود ابھی تک دل سے چاہتے ہوں اور اس شخص کا وجود اور اس کا بار بار سامنے آنا بادشاہ کے لیے ان کے دلوں کے جذبات کو تحریک دینے کا باعث بن جائے۔‘‘

’’تو پھر ہمیں اس کی تصاویر پر پابندی عائد کردینی چاہیے۔‘‘ ایک آواز ابھری۔

’’نہ بلکہ خود اس کو مکمل طور پر پوشیدہ کردینا چاہیے۔‘‘ فیصلہ کن آواز گونجی۔

ادھر یہ شخص فلم میں اپنے مختصر سے دور کو ادا کرکے اپنے آپ کو نئے سرے سے دنیا میں آیا ہوا محسوس کررہا تھا۔ اس مختصر سے دور نے اس کے دل کی آرزوؤں اور تمناؤں کو پھر سے زندگی بخش دی تھی۔ ہر سورج کے طلوع ہونے کے ساتھ اس کے دل میں بھی نئی امیدیں طلوع ہوتیں۔ وہ سوچتا: ’’یقینا اللہ تعالیٰ نے مجھے اس شکل و صورت کے ساتھ اپنی حکمت کے اظہار کے لیے ہی پیدا کیا ہے۔‘‘

پھر وہ بغیر کسی وجہ کے غائب ہوگیا۔ کسی نے اسے کہیں بھی نہ دیکھا۔وہ بالکل غائب ہوگیا۔ شاید ہمیشہ کے لیے۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں