عدالتی طلاق کی جانب

ڈاکٹر سمیہ تحریم (اورنگ آباد)

ملک میں نظامِ طلاق پر عدالتی شکنجہ اس طرح کسا جا رہا ہے کہ نظام طلاق شریعت کے دائرے سے نکل کر انسانی حقوق کا مسئلہ بنا کر ملکی قوانین کے تابع کر دیا جائے اور یقینا یہ انسانی قوانینبے شمار جگہ پر شریعت سے متصادم ہیں اور اپنے نتائج کے لحاظ سے ناقص۔ مسئلہ صرف طلاق ثلاثہ کا نہیں ہے کہ عدالتِ عالیہ نے بیک وقت تین طلاق کو غیر قانونی قرار دے دیا بلکہ مسئلہ یہ ہے عدالتِ عالیہ سمیت ملک کی کئی ہائی کورٹس اور ذیلی عدالتیں شریعت کی من مانی تشریح کر رہی ہیں۔

عدالتِ عالیہ ہوں یا ذیلی عدالتوں کے معزز جج صاحبان یہ علوم شرعیہ سے نابلد اس کی باریکیوں، گہرائیوں اور مختلف جہتوں سے انسانی معاشرے پر اس کے اثرات سے ناواقف ہیں کیوں کہ وہ علم قانون پڑھ کر جج ہوئے ہیں علم شریعت پڑھ کر نہیں لیکن یہ احکامِ شرعیہ کی تشریح میں مفسرین قرآن، علماء دین، مفتیانِ کرام جمہور علماء کی تشریح، تفقّہ، خلفاء راشدین کی تشریحات، سلف صالحین کی رہنمائی اور مسلم پرسنل لاء کے رہنما خطوط کو پس پشت ڈال کر من مانی تشریح اور قانون سازی کر رہے ہیں۔ یہ اپنے آپ پرسنل لاء کو دی گئی قانونی رخصت کے خلاف ہے جس کی دستور ہند نے ضمانت دی ہے۔

ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ اعلیٰ عدالتیں حکومتوں کے لیے ایسے رہنما خطوط جاری کرتیں جن کے ذریعے اس بات کو یقینی بنایا جاتا کہ پرسنل لاز کے فیصلے پرسنل لاز کے مطابق کرنے کے لیے اس پرسنل لا کے ماہرین کو فراہم کرایا جائے تاکہ پرسنل لا پر بہتر طریقے سے عمل آوری ممکن ہو۔ لیکن ایسا کرنے کے بجائے عدالت خود نفسِ مسئلہ میں فیصلے دے کر ایک طرح سے پرسنل لا کی معنویت کو بے معنی بنا رہی ہیں۔ درحقیقت ان جج صاحبان کی اکثریت حقوقِ نسواں کے جدید فلسفہ سے انتہائی متاثر ہے اور اسی بنیاد پر فیصلہ صادر کر رہے ہیں کہ اب مسلمانوں کے لئے یہ ایک انتہائی حساس مسئلہ بن گیا ہے۔

اس کی حسیاست کے دو پہلو ہیں، ایک پہلو تو یہ ہے کہ پرسنل لا سے متعلق اگر کوئی مسئلہ ہے تو اس کی تشریح اور تفہیم اس گروہ یا مذہبی اکائی کے علماء سے لی جانی چاہیے اور جو وہ کہیں عدالتوں کو اس کے مطابق فیصلہ کرنا چاہیے۔ یہی پرسنل لاز کی روح ہے اور یہی اس دستوری دفع کی بھی جو مذہب کی آزادی کو تمام شہریوں کے لیے یقینی بناتی ہے۔

دوسرا پہلو یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا کے کیس میں اگر طلاق باہمی مشاورت یا تحکیم کے ذریعے دی گئی ہے اور اس کو عدالت قبول نہیں کرتی تو اس کا واضح مطلب یہ ہے کہ مسلمانوں کو ان کے پرسنل لا پر عمل کرنے کی آزادی کے باوجود عدالتی طلاق کی جانب دھکیلا جا رہا ہے جب کہ اکثر عدالتی طلاق دنیا و آخرت کی تباہی کا موجب بن سکتی ہے۔ جج صاحبان کی شریعت کی من مانی تشریح کے تابع فیصلے اس پر ستم در ستم یہ کہ وکلاء حضرات کی ایک بڑی تعداد اپنے مقدمہ میں زور پیدا کرنے کے لئے مقدمہ کو مزید الجھا کر جھوٹ، بہتان اور الزام تراشیوں سے پیچیدہ بناکر رکھ دیتے ہیں جیسے گھریلو تشدد قانون D.V.C ACT 43/2005کا ناجائز استعمال 498a کا ناجائز استعمال اس قدر عام ہوا کہ سپریم کورٹ کو اس کے غلط استعمال اور مردوں کے استحصال پر نوٹس لے کر رہنما خطوط جاری کرنے پڑے۔

عدالتی طلاق کے چند مثالیں ملاحظہ فرمائیں کہ کیسے یہ شریعت سے متصادم ہیں اور عدالتیں عین شرعی اصول اور احکامات طریقہ سے دی گئی طلاق کو کیسے مسترد کررہی ہیں بلکہ ایک طرفہ طلاق خواہ وہ کسی بھی طریقے سے دی گئی ہو گواہوں کے سامنے دی گئی ہو، ایک ساتھ دی گئی ہو یا تین مرحلوں میں دی گئی ہو، اسے طلاق تسلیم کرنے سے انکار کیا جارہا ہے۔ دیکھئے 2001 میں شمیم آراء بنام حکومت اترپردیش بحوالہ (Air2002Sc3551)اس طرح 2008 میں مسلم زوج کا مقدمہ (2008(2)ald225) میں عدالت میں دفتر قاضی کے صداقت نامہ اور عین شریعت کے مطابق دی گئی طلاق کو بھی مسترد کر دیا۔دہلی ہائی کورٹ نے مسرور احمد اور عائشہ بیگم کے مقدمے میں بیوی کی غیرموجودگی میں دو گواہ اور قاضی کی روبرو دی گئی تحریری طلاق کو بھی غیرقانونی اور غیرعدالتی طلاق قرار دے دیا۔ یہاںعدالت نے کہا کہ خواہ طلاق ایک دی جائے یا تین، طلاق دینے کے موقع پر بیوی کی موجودگی لازم ہے یا پھر گواہوں کی موجودگی میں مختلف ذرائع سے بیوی کے علم میں طلاق لانے کی توثیق اور گواہوں کی سند کے بعد ہی اسے طلاق سمجھا جائے گا۔

سلیم پاشا اور ممتاز بیگم کے مقدمے میں سلیم پاشا نے تین مرحلے میں ممتاز بیگم کو طلاق دی تو عدالت نے یہ فیصلہ دیا کہ کسی بھی شوہر کو اپنی طرف سے اپنی مرضی سے بیوی کو طلاق دینے کا حق نہیں ہے۔ طلاق کے لئے قابل قبول وجوہات ہونا ضروری ہیں۔

ان فیصلوں کا صاف مطلب یہ ہے کہ مسلم پرسنل لا کے معاملات بھی عدالتیں ہندو میریج ایکٹ ہی کی طرح فیصل کر رہی ہیں اور یہ واضح رہے کہ عدالت کی وجوہات کی ایک بڑی فہرست ہے جن میں ایک یہ ہے کہ دونوں کے درمیان مفاہمت اور صلح کی کوششوں کے دستاویزی ثبوت عدالت میں پیش کرنا ہوں گے۔

2002 میں ممبئی ہائی کورٹ نے رحیمہ بی کے مقدمے میں ایک سال کے دورانیہ میں تین مرحلے میں دی گئی طلاق کو یہ کہ کر تسلیم کرنے سے انکار کردیا کہ مصالحت و مفاہمت کی کوئی کوشش اور ان کوششوں کے کوئی دستاویزی ثبوت نہیں اس لئے یہ طلاق قابل قبول نہیں ہوگی۔ اسی طرح اڑیسہ ہائی کورٹ نے بھی مرحلہ وار شرعی اصولوں کے ساتھ دی گئی طلاق کو مسترد کرتے ہوئے صاف کہہ دیا کہ ایک شوہر صرف اپنی مرضی سے طلاق نہیں دے سکتا۔ طلاق کے لئے قابل قبول وجوہات، مفاہمت و مصالحت کی کوشش اگر نہ کی گئی ہو تو اسے جرم سمجھا جائے گا۔ اس طرح کئی ہائی کورٹس نے صرف طلاق ثلاثہ ہی نہیں، مرحلہ وار طلاق کو بھی مسترد کر دیا۔ اس طرح کے فیصلہ کے خلاف سپریم کورٹ جب پہنچے تو سپریم کورٹ نے شمیم آراء مقدمے میں ہائی کورٹ کے اس طرح کے فیصلوں کی توثیق کردی۔

غرض اس طرح اکثر مواقعوں پر عدالتی طلاق شریعت سے متصادم ہوجاتی ہے۔ تشویشناک بات یہ ہے کہ اب عدالتی طلاق کو بھی شریعت کا جامہ پہنا کر مسلمانانِ ہند پر تھوپنے کی کوشش کی جارہی ہے اور درحقیقت یہ مقدمے کے دونوں ہی فریق کے لئے قانونی پیچیدگیوں اور عدالتی بھول بھلیوں کا ایک تھکا دینے والا عمل ہے۔ عدالتی طلاق میں تاریخ پر تاریخ کا سلسلہ عدالتوںمیں دراز ہوتا رہتا ہے۔ ملک کی عدالتوں میں طلاق و خلع کے لاکھوں مقدمات آج بھی الجھے ہوئے ہیں پارلیمانی کمیٹی نے طلاق کے لئے لازمی انتظار کے مدت کے تعین کی سفارش کی مگر اس مدت کا تعین بھی عدالت پر منحصر ہے۔ نظام عدلیہ کا کیا حال ہے اور یہاں طلاق و خلع کے مقدمات کی کیا درگت ہوتی ہے اس کا اندازہ صرف اسی سے لگایا جاسکتا ہے کہ سپریم کورٹ ہی کی کمیٹی E-Committee کی رپورٹ کے مطابق ملک کی عدالتوں میں بھی دو کروڑ 80لاکھ مقدمات زیر التوا ہیں اور اس کے بنیادی اسباب میں ایک سبب Adjourmment، وقت پر فیصلہ نہ ہونا اور تاریخ پر تاریخ بڑھنا ہے اور اس طرح مقدمات میں الجھ کر عمر کٹتی رہتی ہے اور خاندانی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں