عدل و انصاف کا قیام

سیف اللہ (کوٹہ)

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:

’’ہم نے اپنے رسولوں کو صاف صاف نشانیوں اور ہدایات کے ساتھ بھیجا، اور ان کے ساتھ کتاب اور میزان نازل کی تاکہ لوگ انصاف پر قائم ہوں۔‘‘ (الحدید:۲۵)

سارے انبیاء کے آنے کا مقصد، ہدایت کے آنے کا مقصد، کتاب کے آنے کا مقصد یہ ٹھہرا کہ لوگ انصاف پر قائم رہیں اور انصاف پر قائم رہنے کو ایک فرض قرار دیا۔ اسی آیت میں آگے فرمایا گیا ہے کہ ہم نے لوہا اُتارا اور لوہے میں قوت ہے، طاقت ہے اور لڑائی کا سامان ہے تاکہ اللہ تعالیٰ اس بات کو دیکھے اور آزمائے کہ وہ کون ہیں جو قوت کے ذریعے، اور قوت کو استعمال کر کے اللہ اور اس کے رسولؐ کی مدد کرتے ہیں۔ اور قوت کے ذریعے ہی انصاف قائم کرتے ہیں۔ گویا صاف اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ معاشرے اور ملک میں حکومت اور قانون کی طاقت کے بل پر انصاف قائم کرنا بھی ایک فریضہ ہے جو اللہ نے اس امت پر فرض فرمایا ہے۔ چناں چہ جہاں جہاں بھی اللہ نے فرائض کا حکم بیان فرمایا ہے، یہ بھی کہا ہے کہ تم انصاف کو قائم کرو اور انصاف کے اوپر گواہی دو۔ چناں چہ اللہ تعالیٰ نے سورہ المائدہ آیت ۸ میں ارشاد فرمایا ہے کہ اے ایمان والو، انصاف کو قائم کرنے والے بنو اور اس پر گواہ بن کر کھڑے ہوجاؤ اور یہ صرف اللہ کے لیے ہو اور کوئی غرض نہیں ہونی چاہیے۔

دوسری جگہ فرمایا گیا ہے ’’اے لوگو! جو ایمان لائے ہو اللہ کے لیے کھڑے ہوجاؤ، انصاف قائم کرنے والے اور انصاف پر گواہ بن کر۔‘‘ (نساء:۱۳۵)

پوری امت کے وجود کا مقصد یہی ہے کہ حق اور انصاف کے اوپر قائم ہو، اور اسی پر گواہی دے۔ یہ بھی حکم ہے کہ خود اپنے اجتماعی اور انفرادی تمام معاملات میںعدل اور انصاف پر قائم رہو۔ یہ دونوںآیتیں اس بات کو ظاہر کرتی ہیں کہ یہ کام اللہ کی طرف سے سپرد کر دیا گیا ہے، اس کو صرف اللہ کے لیے انجام دینا چاہیے۔ کام یہ ہے کہ مسلمان جہاں بھی ہوں، اپنے قول میں، فعل میں، معاملات میں، عدل و انصاف قائم رکھیں اور اس کی گواہی دیں۔ امت کا فرض ہے کہ انصاف پر قائم رہے، انصاف کے اوپر قائم رہنے اور انصاف کی بات کرنے کی زد خود اپنی ذات پر پڑتی ہو تب بھی تمہیں انصاف پر قائم رہنا ہے۔ والدین ہوں، قرابت دار ہوں، قبیلے والے ہوں، برادری والے ہوں، قوم کے لوگ ہوں، جس سے بھی معاملہ پڑے امیر ہو یا غریب، بے اثر ہو یا دولت مند، تمہارا فرض ہے کہ اللہ کے واسطے انصاف ہی کی بات کہو اور انصاف پر قائم رہو۔ کوئی حکومت کے کسی عہدے پر ہو، معزز ہو، گاؤں کا چودھری ہو، تو آدمی ان کے ساتھ کچھ اور بات کرے، اور غریب، بے بس، بے سہارا ہو تو ان کے ساتھ کچھ اور بات کرے تو یہ زوال اور تباہی کا راستہ ہے۔ دونوں طرح کے معاملات میں حق پر قائم رہنا اور انصاف کی بات کرنا ہے۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’بے شک انصاف کرنے والے اللہ کے ہاں نور کے منبروں پر ہوں گے۔ وہ لوگ جو اپنے فیصلے میں اور گھر کے معاملے میں اور جن کے وہ ذمہ دار ہیں سب کے ساتھ انصاف برتتے ہیں۔‘‘ (مسلم)lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں