عروج و زوال کی کسوٹی

خنساء سبحانی

اللہ تعالیٰ نے قرآن مجید میں بعثتِ نبویؐ کو ان الفاظ میں بیان فرمایا ہے:
ترجمہ:’’ تم لوگوں کے پاس ایک رسول آیا ہے جو خود تم ہی میں سے ہے، تمہارا نقصان میں پڑنا اس پر شاق ہے، تمہاری صلاح کا وہ حریص ہے۔ ایمان لانے والوں کے لیے وہ شفیق اور رحیم ہے۔‘‘(التوبہ:128)
پھرآپﷺ کی انتھک محنت کے نتیجے میں ایسی امت تیار ہوئی جو واقعتا حامل قرآن کہلائی۔ قرآن کو سننا، اسے سمجھنا، اس پر عمل کرنا، لوگوں تک اسکی تعلیم کو عام کرنا، یہی ان کا مشغلہ بن گیا۔ اگر مدینہ میں دن کے کسی پہر آیت نازل ہوتی تو سورج ڈھلنے سے پہلے قریہ قریہ بستی بستی پہنچ جاتی تھی ، پھر دیکھتے ہی دیکھتے وہ امت مشرق و مغرب میں پھیل گئی۔
اسی امت نے اپنی سوچ کے ذریعہ جو دراصل قرآن کی فراہم کردہ اور اللہ کی طرف سے بھیجی گئی تھی، پوری دنیا کو متاثر کیا۔ لوگوں کی زندگیوں کو تبدیل کردیا۔ قوموں کی سوچ و فکر اور طرزِ زندگی کو بدل ڈالا اور تعمیر و ترقی کا ایسا متوازن نظریۂ عمل دیا کہ قرآن کی سوچ والے پوری دنیا کی قیادت کے منصب پر آبیٹھے۔ لیکن جب امت کا رشتہ اس کتابِ ہدایت سے کمزور پڑا تو عزت و بلندی نے ان سے منھ موڑنا شروع کردیا اور پوری امت دھیرے دھیرے مغلوبیت کی آزمائش میں مبتلا ہوتی گئی اور آج کہاں کھڑی ہے، ہم سب جانتے ہیں۔
اس زبوں حالی کا ادراک امت کے باشعور افراد کودنیا کے ہر ہر خطہ اور ہر ہر ملک میں ہمیشہ رہا اور آج بھی ہے۔ چنانچہ ہم دیکھتے ہیں کہ امت میں ہمیشہ ایسے لوگ رہے جو لوگوں کو اس بات کی دعوت دیتے رہے کہ ہم اپنی زندگیوں کو قرآن کی ہدایات کے مطابق بنائیں۔ یہی ہماری ذلت کو ختم کرنے کا واحد راستہ ہے۔
ان افراد کو یہ ادراک ہو گیا تھا کہ ان کی کامیابی کی کنجی قرآن ہے۔ زندگی کے ہر شعبے کی رہنمائی وہاں فراہم ہے۔ لیکن اس رہنمائی کے لیے صدق دل سے، یکسوئی کے ساتھ قرآن سے وابستگی ضروری ہے۔ جیسا کہ قرآن کہتا ہے:
يُضِلُّ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۙ وَّيَہْدِىْ بِہٖ كَثِيْرًا۝۰ۭ وَمَا يُضِلُّ بِہٖٓ اِلَّا الْفٰسِقِيْنَ۝۲۶ۙ (البقرۃ:26)
قرآن کی رہنمائی صبح صادق کی پہلی کرن سے ہی ہماری زندگی کی راہ روشن کرنے لگتی ہے، بلکہ رات کے اندھیروں میں بھی اس کی ہدایات ہمیں تنہا نہیں چھوڑتی ہے ۔ اللہ کا قول ہے:
قُـمِ الَّيْلَ اِلَّا قَلِيْلًا۝۲ۙ (المزمل:2)
قرآن کی خاصیت ہے کہ وہ بند حجروں میں محبوس عابد ہی کی تلاش میں نہیں بلکہ سماج میں چلتا پھرتا حامل قرآن کی تربیت کرتا ہے۔ اسی لیے عبادات کے ساتھ وہ معاشی تگ و دو کے رہنما اصول بتاتا ہے۔
فَاِذَا قُضِيَتِ الصَّلٰوۃُ فَانْتَشِرُوْا فِي الْاَرْضِ وَابْتَغُوْا مِنْ فَضْلِ اللہِ وَاذْكُرُوا اللہَ كَثِيْرًا لَّعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَ۝۱۰ (الجمعۃ:10)
اگرچہ دولت کی طمع، دنیا کی ہوس کو قرآن نے ناپسند کیا ہے، لیکن حلال رزق کی تلاش پر ابھارا ہے۔ کیونکہ قرآن جہاں ایمان کی لذت سے آشنا کرتا اورفکری بالیدگی عطا کرتا ہے۔وہیں اقتصادی اور معاشی رہنما اصول بھی دیتا ہے۔جس میں حلال کی کمائی پر خوب زور دیا گیا ہے۔
يٰٓاَيُّہَا النَّاسُ كُلُوْا مِمَّا فِي الْاَرْضِ حَلٰلًا طَيِّبًا۝۰ؗۖ (البقرۃ:168)
لیکن اس کمائی کو تجوریوں میں قید نہیں کرتا اور امیر و غریب دونوں کو حلال کمائی کی ترغیب دیتا ہے اور وہیں امیر کو یہ حکم بھی دیتا ہے کہ
مِمَّا رَزَقْنٰھُمْ يُنْفِقُوْنَ۝۳ۙ (البقرۃ:3)
حَقٌّ مَّعْلُوْمٌ۝۲۴۠ۙ لِّلسَّاۗىِٕلِ وَالْمَحْرُوْمِ۝۲۵۠ۙ (المعارج:24-25)
قرآن سے وابستہ ہونا، قرآن کے مطابق زندگی گزارنا، اس کے نور سے اپنی زندگی کو منور کرنا، حقیقتاً اس وقت تک ممکن نہیں جب تک قرآن کی وابستگی اور اس پر عمل کا جذبہ نہ پیدا ہو۔ کیونکہ قرآن جہاں افلا یتدبرون القرآن کہتا ہے۔ وہیں سمعنا و اطعنا کا جذبہ بھی دیکھنا چاہتا ہے۔ وہ شخص خود کو قرآن کا ماننے والا کیسے کہہ سکتا ہے۔ جسے قرآن ایک حکم دیتا ہو اور اس کی زندگی اس پر عمل سے خالی ہو۔قرآن کہتا ہے:
فَلَا تَـقُلْ لَّہُمَآ اُفٍّ وَّلَا تَنْہَرْہُمَا (الاسراء:23)
لیکن مسلم سماج میں والدین کے ساتھ ہمارا رویہ تشویشناک ہے۔ قرآن بار بار ایمان کے ساتھ عمل کی دعوت دیتا ہے۔لیکن ہماری زندگیاں عمل سے خالی ہیں۔اسی طرح قرآن کے وہ احکامات جن کا تعلق معاملات، تجارت، سیاست وغیرہ سے ہے۔ان سے بھی ہم نا آشنا ہوتے ہیں ۔ قرآن پر ایمان رکھنے والا اور رسولﷺ کے امتی ہونے کا مطلب ہے کہ صبح سویرے بیدار ہونے سے لے کر رات میں سونے تک ہماری زندگی کے سارے کام اور تمام اعمال قرآن کے مطابق ہوں۔ قرآن کی تعلیمات صرف نصیحت نہیں کہ اس پر عمل کرنا نہ کرنا انسان کی صوابدید پر ہو،یا جن باتوں کو ہم چاہیں اختیار کرلیں اور جنھیں چاہیں چھوڑ دیں۔
ہم نبیؐ کے امتی اور آپ سے محبت کرنے والے ہیں۔ ذرا سوچئے کہ قیامت کے دن اگر رسولؐ ہمارے خلاف کھڑے ہوگئے اور کہہ دیا کہ
وَقَالَ الرَّسُوْلُ يٰرَبِّ اِنَّ قَوْمِي اتَّخَذُوْا ھٰذَا الْقُرْاٰنَ مَہْجُوْرًا۝۳۰ (الفرقان:30)
اے میرے پروردگار! بیشک میری امت نے اس قرآن کو چھوڑ رکھا تھا۔تو ہمارا کیا انجام ہوگا؟!

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں