عصر حاضر میں خواتین کا دعوتی کردار

عطیہ صدیقہ

دعوت و تبلیغ اور امر بالمعروف و نہی عن المنکر کے معاملے میں اللہ تعالیٰ نے ایک ہی جگہ مومن مرد اور مومن عورتوں کو ایک ساتھ حکم دیا ہے اور ان کی دنیا و آخرت کی کامیابی کو اس فریضہ کی ادائیگی سے جوڑا ہے۔ بنی اسرائیل کے علما کو نشان عبرت بتاتے ہوئے قرآن میں کہا گیا ہے:

’’اور وہ لوگوں کو نہیں روکتے تھے اس برائی سے جو وہ خود کرتے تھے۔ کتنا برا تھا جو وہ کرتے تھے۔‘‘ (المائدۃ:۹۷)

عورت نصف معاشرہ ہے بلکہ تاثیر کے اعتبار سے دیکھا جائے تو نصف سے بھی بڑھ کر۔ عورت اگر صالح ہو تو معاشرہ صالح ہوتا ہے اور اس کے فاسد ہونے سے معاشرہ فاسد ہو جاتا ہے۔ استعماری طاقتوں نے عورت کی اس اہمیت کا اسی وقت خوب اندازہ کرلیا تھا جب انھوں نے دیگر قوموں پر عقائدی، فکری، سیاسی، ثقافتی اور اقتصادی غلبہ حاصل کرنے کے لیے آلہ کار کے طور پر عورت کے کردار پر اعتماد کیا تھا۔

دور رسالت میں حضوؐر نے عورت و مرد کی معاشرتی ذمہ داریاں اور حدود متعین فرمائے۔ اور پھر ان کے ذریعے ایک ایسا مثالی معاشرہ قائم کیا جس میں عورت کا انقلابی اور ہمہ جہت رول ہر جگہ نظر آتا ہے۔ چنانچہ آج بھی اگر ان ہی خطوط پر زندگیاں گزاری جائیں تو پورا معاشرہ مثالی معاشرہ بن جائے گا۔

نبوی معاشرہ اور عہد وحی و رسالت میں ہمیں مختلف سرگرمیوں میں مردوں اور خواتین کی شرکت نظر آتی ہے۔ اس عہد کی خواتین نے کہیں کوششوں کے ذریعے اسلام کو تقویت دی تو کہیں اپنے مشوروں کے ذریعے تحریک اسلامی کو قوت بخشی نیز اسلام کے غلبہ اور اس کی توسیع میں حصہ لیا۔ تاریخ میں ہم دیکھتے ہیں کہ وہ عروجِ اسلامی کے آخری مرحلے کی جدوجہد یعنی جہاد فی سبیل اللہ میں بھی شریک رہی ہے۔ عہد نبوی اور بعد کی تاریخ میں اس کی روشن مثالیں ملتی ہیں۔ حضرت ام عمارہ سمیہ بنت حیاط، نسیبہ بنت کعب، احد کی بہادر خواتین اسما بنت یزید وغیرہ وہ عظیم ہستیاں ہیں جنھوں نے دعوتِ اسلامی اور فروغ دین کی جدوجہد میں ایسے نقوش چھوڑے، جن میں آنے والی نسلوں کے لیے رہنمائی بھی ہے اور ان پر چلنے والوں کے لیے عظمت و سربلندی۔

دعوت دین کی تڑپ کا واقعہ

حضرت ام شریک غزیہ بنت جابر بن حکیم دوسیہ مکہ میں اسلام لائیں تو قریش کی خواتین کو خفیہ طور پر اسلام کی دعوت دینے لگیں۔ یہاں تک کہ اہل مکہ کو ان کی اس سرگرمی کا پتہ چل گیا۔ اہل مکہ نے ان کو پکڑ کر کہا کہ ’’اگر تمھاری قوم کا خیال نہ ہوتا تو ہم تمھیں نہایت درد ناک سزا دیتے‘‘ لیکن اب ہم تمھیں ان کے پاس پہنچا دیں گے۔ خود ام شریک کا بیان ہے کہ اہل مکہ نے مجھے اونٹ کی ننگی کمر پر سوار کیا پھر مجھے تین دن تک بنا کھلائے پلائے رکھا۔ تین دن بعد میرا حال ایسا ہوگیا کہ میں کچھ بھی سن نہیں پا رہی تھی۔ سفر کے دوران جب بھی کسی منزل پر اترتے، مجھے دھوپ میں باندھ دیتے اور خود سائے میں رہتے۔ مجھے کچھ بھی کھانے پینے کو نہ دیتے۔ مستقل انھوں نے میرے ساتھ یہی کیا۔ ایک منزل پر جب انھوں نے اتر کر مجھے دھوپ میں باندھا اور خود سائے میں چلے گئے تو اچانک مجھے اپنے سینے پر ایک نہایت ٹھنڈی چیز محسوس ہوئی۔میں نے اسے پکڑا تو وہ پانی کا ایک ڈول تھا۔ میں نے اس سے تھوڑا سا پیا پھر وہ اٹھ گیا۔ پھر آیا اور میں نے اس سے پانی پیا اور وہ پھر اٹھ گیا۔ ایسا بارہا ہوا یہاں تک کہ میں نے خوب پیا اور میں سیراب ہوگئی۔ پھر میں نے پورا پانی اپنے جسم اور اپنے کپڑوں پر ڈال دیا۔ پھر جب وہ جاگے تو انھوں نے پانی کے نشانات دیکھے اور مجھے بھی بہتر حال پایا۔ یہ دیکھ کر انھوں نے مجھ سے کہا کہ کیا تم کھل گئی تھیں اور تم نے ہمارے پانی کے برتن سے پانی پیا ہے؟ میں نے کہا بخدا میں نے ایسا نہیں کیا بلکہ پورا واقعہ سنایا۔ یہ سن کر وہ بول پڑے کہ اگر تم سچی ہو تو پھر اس کا مطلب یہ ہے کہ تمھارا دین ہمارے دین سے بہتر ہے۔ پھر انھوں نے اپنے برتن دیکھے تو انھوں نے جیسا چھوڑا تھا ویسا ہی پایا۔ نتیجتاً وہ مسلمان ہوگئے۔

عہد نبوی میں ایک خاتون پورے خاندان کو دین جدید کی دعوت دیتی تھی۔ امام بخاری نے اپنی سند سے حضرت عمران کا ایک لمبا واقعہ نقل کیا ہے۔

ایک سفر میں اللہ کے رسول نے قیام کیا اور پانی کی تلاش میں لوگوں کو بھیجا۔ لوگ ایک بڑھیا کو لے کر آئے جس کے پاس پانی تھا۔ صحابہ نے اس کے برتنوں سے پانی لیا اور اپنی ضرورت پوری کرنے کے بعد اسے اپنی طرف سے بہت سا سامان دے کر رخصت کیا۔ اس کے باوجود اس کے پانی میں کمی نہیں آئی۔ بڑھیا جب اپنے قبیلے میں پہنچی تو اس نے کیا تبلیغ کی دیکھئے!

وہ خاتون اپنے گھر والوں کے پاس گئی اور اپنے دیر سے لوٹنے کا سبب بتایا اور کہا کہ بخدایا تووہ آسمان و زمین کے درمیان رہنے والا سب سے بڑا جادوگر ہے یا پھر واقعی اللہ کا رسول ہے۔ اس کے بعد مسلمان ارد گرد کے مشرکین پر حملہ کرتے تھے لیکن اس خاتون کے محلے پر حملہ نہیں کیا۔ ایک دن اس نے اپنے قبیلے والوں سے کہا کہ میرے خیال میں یہ لوگ ہم کو جان بوجھ کر چھوڑ رہے ہیں تو کیا تم اسلام قبول کرسکتے ہو۔ لوگوں نے اس کی بات مان لی اور اسلام میں داخل ہوگئے۔ اس طرح ایک عورت کے ذریعے پورا قبیلہ مشرف بہ اسلام ہوا۔

یہ تو عہدہ رسالت کے وہ جانباز خواتین کے نمونے ہیں۔ دور رسالت کے بعد بھی خواتین نے اسلام کی اشاعت کے لیے میدان جنگ میں اور معاشرتی اصلاح کرتے ہوئے مصنفہ اور مقررہ کے کردار کو نبھایا، ان کی چند مثالیں پیش کی جا رہی ہیں۔

ازدہ بنت حارث

یہ مجاہد خاتون میدان جنگ میں زبردست بہادری اور ثابت قدمی کے ساتھ داخل ہوئی اور دشمنوں پر واضح کامیابی حاصل ہوئی۔ مورخین نے لکھا ہے ازدہ بنت حارث نے عورتوں سے کہا کہ ہمارے مرد دشمنوں سے جنگ کر رہے ہیں اور ہم یہاں مردوں کے بغیر تنہا رہ رہی ہیں۔ مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں دشمن ہم پر حملہ نہ کردیں اور ایک خوف بھی مجھے ستاتا ہے کہ کہیں دشمنوں کی تعداد مسلمانوں پر بھاری نہ پڑ جائے اور نتیجتاْ وہ کہیں مسلمانوں کو شکست نہ دے دیں۔ اگر ہم بھی نکل پڑیں تو ہم اس خوف سے بھی نجات پاجائیں گے کہ کہیں دشمن ہم تک نہ پہنچ جائیں، اور ہم کو میدان جنگ میں آتا دیکھ کر مشرکین کو خیال ہوگا کہ مسلمانوں کے پاس زبردست کمک آگئی ہے۔ یہ بات ان کو توڑ کر رکھ دے گی۔ اگر ہم ایسا کرتے ہیں تو یہ بہترین حربہ ہوگا۔

ملک حنفی ناصف

یہ معاشرتی امور کی عظیم مصنفہ تھیں۔ ۱۸۸۶ میں قاہرہ کے ایسے خاندان میں پیدا ہوئیں جہاں علم و ادب کا خاص اہتمام تھا۔ ملک اپنی قوم سے زبردست محبت کرتی تھیں۔ معاشرے میں پائے جانے والے پچھڑے پن اور انحطاط پر انھیں سخت تکلیف تھی۔ اس سلسلے میں انھوں نے لوگوں کی تربیت و راہ نمائی کی اور تحریروں کے ذریعے معاشرے کے مسائل کی ہمہ گیر اصلاح پر گفتگو کرنے لگیں۔

عصر حاضر میں خواتین کے لیے کام کرنے، ترقی کرنے اور سماجی سرگرمیوں میں شرکت کرنے کے امکانات روشن ہوگئے ہیں۔ خواتین کو چاہیے کہ وہ علمی و فکری تیاری کریں، قرآن و حدیث سے تعلق مضبوط کریں اور خاص طور پر عہد رسالت میں عورت کے مقام و مرتبہ و دعوتی کردار کا گہرائی سے مطالعہ کریں، حالاتِ حاضرہ پر گہری نظر ہو اور عصر حاضر کے مسائل کا اسلامی حل پیش کریں۔ شرعی حدود کی پابند ہوں جیسے لباس، چال چلن، گفتگو، حرکات و سکنات اور محرم کے بغیر سفر سے اجتناب وغیرہ۔

عورت کو شخصی ارتقا اور حقوق و ذمے داریوں سے آگاہی کی اہمیت کا ادراک، خاندانی نظام کو مستحکم کرنا، ازدواجی تعلقات کو مضبوط کرنا، جہاں ضروری ہے، وہیں اپنی مختلف ذمہ داریوں کے درمیان توازن بھی ضروری ہے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ گھر اور خاندان کا خاص طور پر خیال رکھے، دعوتی کام کی بہتر منصوبہ بندی کرے، اہداف اور ترجیحات کا تعین کرے، وقت کو منظم کرے، اس کے استعمال کا فن جانے، اس منصوبہ بندی میں شوہر اور اولاد کو شریک کرے تاکہ توازن اور تعاون میں مدد ملے، اولاد کی صلاحیتوں کو بھی جلا ملے اور مطلوبہ توازن بھی حاصل ہو۔ عصر حاضر میں میڈیا جدوجہد کا ایک میدان ہے۔ جس میں اپنا فعال اور موثر رول ادا کر کے موجودہ دور کی عورت دعوت کے فروغ میں اہم رول ادا کرسکتی ہے۔

اہم بات یہ ہے کہ مسلم عورت اپنے دعوتی و تبلیغی رول کے لیے خود کو تیار بھی کرے اور میدان میں یہ کام انجام بھی دے۔ اس کے لیے ہم دو سطح پر کوشش کرسکتے ہیں۔

ایک سطح یہ ہے کہ ہم اپنی صلاحیت اور اپنا وقت اسلام کی اجتماعی جدوجہد کے ساتھ لگ کر لگائیں۔ اور دوسرا یہ ہے کہ ہم سماج میں جہاں کہیں بھی ہوں وہاں دین کے داعی بنیں۔ ہم اسکول میں ٹیچر ہیں تو ہمارے ساتھ رہنے والے لوگوں کو ہمارے ذریعے دین کا علم اور شعور ملنا چاہیے۔ اور اگر ہم ایک ہاؤس وائف ہیں تو محلے، پڑوس اور رشتہ داروں کے درمیان ہیں تو دین کا شعور پیدا کرنا اور انہیں دعوتی جدوجہد کے لیے آمادہ کرنا ہمارا اہم ترین فرض ہوگا ۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں