ہماری قوم کے لوگوں کی عام معلومات سے دلچسپی افسوس ناک حد تک ناقص ہے اور زیادہ افسوس کی بات یہ ہے کہ ان میں طلباء و طالبات کی کثیر تعداد بھی شامل ہے۔ ہمارے اکثر طلبہ کو ریاستی وزرائے اعلیٰ اور گورنرز تک کے نام نہیں معلوم ہوتے۔ لوگ دن رات سیاست اور مذہبی امور و مسائل پر آپس میں تو بحث مباحثہ کرتے رہتے ہیں، لیکن انھیں اپنے ملک کی سیاسی تاریخ اور ماضی میں پیش آنے والے سیاسی واقعات کا کچھ علم نہیں ہوتا۔ یہی حال ان کی مذہبی معلومات کا ہے۔ مذہبی بحث میں حدیث کو وہ قرآنی آیت بتاتے ہیں اور اکثر سنے سنائے اقوال، احادیث کے طور پر پیش کردیتے ہیں۔ اپنے دین اور اس کے شعائر کی بابت ان کی معلومات اس قدر واجبی ہوتی ہیں کہ نماز، وضو، غسل وغیرہ کے بنیادی اور ضروری مسائل تک سے ناواقف ہوتے ہیں۔ علم اور معلومات کے فقدان کی ایک وجہ تو یہ ہے کہ نیم خواندہ طبقہ تو چھوڑیے، ڈگری یافتہ لوگ بھی اخبار و رسائل اور کتابیں اس لیے نہیں پڑھتے کہ انھیں جاننے کا شوق نہیں ہے اور نہ جاننے کی ضرورت ہی محسوس کرتے ہیں۔ ہمارے لوگ گفتگو اور بحث مباحثے کے بہت شوقین ہیں۔ خصوصاْ سیاست اور مذہب پر باتیں کرنا ہر شخص اپنا حق سمجھتا ہے اور ان دونوں موضوعات پر ان کا انداز گفتگو بھی فیصلہ کن ہوتا ہے، لیکن ایسے لوگ اس کی ذرا بھی ضرورت محسوس نہیں کرتے کہ جس موضوع پر وہ فیصلے دے رہے ہیں، اس پر کچھ پڑھ اور کچھ جان لیں۔ چوں کہ انھیں معلومات حاصل کرنے اور کسی بھی موضوع پر علم سیکھنے کا تجسس اور ذوق و شوق نہیں ہوتا، لہٰذا وہ ادھر ادھر سے جو کچھ سن لیتے ہیں، اسی کو سچ سمجھ لیتے ہیں اور اسی کو دہراتے رہتے ہیں۔
گاؤں اور قصبوں کا تذکرہ تو الگ، شہروں تک میں جہاں خواندگی کا تناسب اچھا خاصا ہوتا ہے، اخبار خریدنے کا رجحان انتہائی کم ہے۔ بہت سے پڑھے لکھے گھرانوں میں بھی پڑوس سے اخبار منگوا کر پڑھنے کی عادت ہے۔ اخبار، رسالہ یا کتاب پر رقم خرچ کرنے کو فضول خرچی تصور کیا جاتا ہے۔ لہٰذا وہ اخبار یا کتاب نہ خریدنے کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ مہنگے ہیں۔ وہ گھرانے جو آئس کریم، چکن رول اور بروسٹ پر ہزار، پانچ سو روپے بہ سہولت خرچ کر ڈالتے ہیں انھیں تین ساڑھے تین سو کی سالانہ مالیت کا رسالہ یا کتاب مہنگی محسوس ہوتی ہے۔ اخبار پر وہ ٹیلی ویژن کی خبروں کو ترجیح دیتے ہیں۔ حالاں کہ ریڈیو اور ٹیلی ویژن کسی بھی واقعے کو تفصیل کے ساتھ اس طرح بیان نہیں کرسکتے، جس طرح اخبار اسے شائع کرسکتا ہے۔ اسی لیے حالات حاضرہ کے واقعات سے لوگ بڑی حد تک لاعلم رہ جاتے ہیں۔
بدقسمتی سے ہم میں سے اکثر لوگ علم اور معلومات کی اہمیت سے ناواقف ہیں۔ یہاں تک کہ طلباء و طالبات بھی تعلیم کے حصول کا مقصد اچھے گریڈ سے امتحان میں کامیابی کو سمجھتے ہیں۔ جو طلبہ یونیورسٹی کے امتحانات میں اول پوزیشن لاکر سرخ رو ہوتے ہیں انھوں نے بھی اپنے مضمون میں کسی ایک اچھی کتاب کا پورا مطالعہ نہیں کیا ہوتا۔ امتحان میں کام یابی کے لیے نوٹس اور ضروری سوالوں کے جواب کا رٹ لینا ہی کافی سمجھا جاتا ہے۔ والدین مطالعے کا مطلب نصابی کتابوں کا مطالعہ خیال کرتے ہیں۔ معدودے چند ہی گھرانے ہوں گے، جہاں بچوں کو پڑھنے کے لیے کتابیں تحفے میں دی جاتی ہوں۔ یا انھیں بچوں کے رسائل یا اخبارات کے مطالعے کی طرف مائل کیا جاتا ہو اور تو اور اسکول سے یونیورسٹی کی سطح تک کے اساتذہ، طلبا و طالبات کو علم اور معلومات کے لیے کتابیں پڑھنے کی طرف راغب نہیں کرتے، کیوں کہ خود اساتذہ کرام کی اکثریت نئی کتابوں اور نئی معلومات سے اپنے ذہن کو آراستہ کرنے کی ضرورت محسوس نہیں کرتی۔ کسی گھر میں شوہر کتابوں کے مطالعے کو زیادہ وقت دے تو بیوی بچوں کو اعتراض ہوتا ہے اور وہ اسے وقت کا زیاں سمجھ کر شوہر یا باپ کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں۔ تعلیم یافتہ گھرانوں میں بھی جہاں ہر طرح کا سامان تعیش ہوتا ہے، وہاں اگر نہیں ہوتی ہیں تو کتابیں، ایسے گھر ڈھونڈے سے بھی مشکل ہی سے ملیں گے، جہاں ڈرائنگ روم اور لاؤنج کے علاوہ اسٹڈی روم بھی ہو، جہاں کتابیں الماریوں اور شیلف پر رکھی ہوں۔ یہی وہ صورت حال ہے جس کی وجہ سے ہمارے یہاں اخبارات اور رسائل کی اشاعت آبادی کے تناسب سے افسوس ناک حد تک کم ہے۔ ایک کتاب جو پہلے ایک ہزار چھپتی تھی اب گھٹ کر تین سو کی تعداد پر آگئی ہے۔ اکثر معیاری اور مفید کتابوں کے اگلے ایڈیشنز کے چھپنے کی نوبت بھی نہیں آتی ہے۔ البتہ خواتین لکھنے والیوں کے ایسے ناولز جن میں رومان اور مذہبی جذبات کی چاشنی ہوتی ہے، وہ لڑکیوں اور عورتوں میں اب بھی شوق سے پڑھے جاتے ہیں۔ تاہم ایسے ناولز خواتین میں اپنے مطالعے کی سطح کو بلند کرنے اور بہتر بنانے کا کوئی شوق پیدا نہیں کر پاتے۔ اس کے برعکس وہ ایسی ہی تحریروں کی عادی ہو جاتی ہیں جن سے سیکھنے سکھانے کو کچھ نہیں ملتا حتی کہ بول چال کی زبان کو بہتر بنانے میں بھی کوئی مدد نہیں ملتی۔ شہریوں کے مطالعے کے لیے نئی لائبریریز قائم نہیں ہو رہی ہیں، بلکہ چالیس پچاس برس قبل جو پرانی لائبریریز بن گئی تھیں، ان ہی پر گزارا ہو رہا ہے۔ ان لائبریریوں میں زیادہ تر ایسے طلباء و طالبات نظر آتے ہیں، جنہیں پڑھنے پڑھانے اور امتحانات کی تیاری کے لیے گھر میں پرسکون ماحول میسر نہیں ہوتا یا وہ اپنے دوستوں کے ساتھ کمبائنڈ اسٹڈی کرنا چاہتے ہیں۔ اس حوالے سے اگر دیکھا جائے تو یورپ، امریکہ یا کنیڈا میں ٹرینوں، بسوں، پارکوں یہاں تک کہ فاسٹ فوڈز کی دکانوں کے آگے قطار میں کھڑے لوگوں کے ہاتھوں میں کوئی نہ کوئی کتاب ضرور ہوتی ہے، جنہیں وہ انہماک سے پڑھنے میں مصروف نظر آتے ہیں۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ وہاں کے تعلیمی نظام میں اسکول ہی کی سطح پر بچے کو مطالعے کا عادی بنا دیا جاتا ہے۔ اعلیٰ تعلیمی اداروں کی لائبریریوں کا عملہ کتابوں کی فراہمی میں مستعدی کا مظاہرہ کرتا ہے۔ صرف موضوع بتانا پڑتا ہے، کتابوں کی نشان دہی لائبریرین خود کر دیتا ہے۔ اس حوالے سے ایک پروفیسر نے اپنے تجربات بتاتے ہوئے کہا کہ یورپ یا امریکہ کی لائبریریوں میں قدم رکھیں تو عملے کے تعاون اور پذیرائی سے ایسا لگتا ہے کہ آپ نے لائبریری آکر ان پر کوئی احسان کر دیا ہے، جب کہ ہماری لائبریریوں میں عملہ ایسی سرد مہری کا مظاہرہ کرتا ہے جیسے آپ نے حصولِ کتاب کے لیے ان سے رابطہ کر کے انہیں ایک پریشانی اور مصیبت میں مبتلا کر دیا ہے۔ ہمارے ملک میں کمپیوٹر اور انٹرنیٹ وغیرہ کو بالعموم ’’چیٹنگ‘‘ کے لیے استعمال کیا جاتا ہے۔ ایسے لوگ کم ہی ہوں گے جو کسی سائٹ پر جاکر انٹرنیٹ کو حصولِ معلومات کا ذریعہ بناتے ہیں۔ کہا جاتا ہے کہ ہمارے ہاں کتابوں سے عدم دلچسپی کی وجہ ٹیلی ویژن، کمپیوٹر اور موبائل فون کا بڑھتا ہوا استعمال ہے۔ حالاں کہ جن مغربی ملکوں میں یہ چیزیں ایجاد ہوئیں اور جہاں ان کا استعمال بھی کچھ کم نہیں، وہاں آج بھی مطالعے کا رجحان ہے اور بڑھ رہا ہے اور وہ ان چیزوں کو بھی پڑھنے کے لیے استعمال کر رہے ہیں۔ اب بھی وہاں کثرت سے نئی نئی کتابیں چھپتی اور پڑھی جاتی ہیں۔ کتابیں کم پڑھے جانے کی وجہ سے وہ اسکالر اور ادیب، جن کا اوڑھنا بچھونا ہی علم و ادب ہے، اسے اپنی کل وقتی سرگرمی نہیں بنا پاتے۔ کیوں کہ کتابوں کی اشاعت سے انھیں رائلٹی کی جو رقم ملتی ہے، اس میں کوئی بھی ادیب اور اسکالر زندگی گزارنے کا تصور بھی نہیں کر سکتا۔ یہ صورتِ حال ترقی یافتہ ملکوں میں نہیں ہے۔ ایک کتاب ’’بیسٹ سیلر‘‘ ہوجائے تو رائلٹی کی رقم اتنی ہوجاتی ہے کہ پوری زندگی اس میں بہ سہولت گزاری جاسکتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ انگریزی زبان میں شائع ہونے والی کتابوں کی مارکیٹ عالم گیر ہے، جب کہ اردو کتابیں زیادہ سے زیادہ اپنے ہی ملک میں فروخت ہوسکتی ہیں۔
یہ حقیقت ہے کہ مطالعہ کتاب کا تعلق بنیادی طور پر عادت سے ہے۔ اگر اسکول اور کالج کی سطح ہی پر طلبہ کو مطالعے کا عادی بنا دیا جائے تو یہ عادت رفتہ رفتہ پختہ ہوتی جاتی ہے۔ اس میں بڑا کردار والدین اور اساتذہ ادا کرسکتے ہیں۔ فی زمانہ بچوں اور نوجوانوں کو مطالعے کی اہمیت کا یقین دلانا ازحد ضروری ہے، اس یقین کے ساتھ کہ معلومات ہی طاقت ہے۔ دنیا میں وہی قومیں ترقی یافتہ ہیں، جنہیں علم، معلومات اور تحقیق سے محبت ہے، جب کہ وہ قومیں زوال کا شکار ہیں، جن میں علم اور معلومات سے بے رغبتی اور عدم دلچسپی پائی جاتی ہے۔ یہ کام دیرپا ضرور ہے، مگر ناممکن نہیں۔