[wpdreams_ajaxsearchpro id=1]

علومِ اسلامیہ میں خواتین کی خدمات

ڈاکٹر محمد رضی الاسلام ندوی

آج ہمارے درمیان اس موضوع پر مباحثے جاری ہیں کہ مساجد میں خواتین کا داخلہ جائز ہے یا نہیں؟ جب کہ ابتدائی صدیوں میں خواتین کے علمی دروس کی مجلسیں منعقد ہونا ایک عام بات تھی۔ وہ اپنے گھروں میں، دوسروں کے گھروں میں،مسجدوں میں، مدارس اور رباطات میں،باغات میں اور دیگر مقامات میں مسندِ تدریس پر بیٹھتی تھیں اور ان سے استفادہ کرنے والوں میں مرد اور خواتین دونوں ہوتے تھے۔ اسلام میں تین مسجدوں (مسجدِ حرام، مسجدِ نبوی اور مسجد اقصیٰ) کی غیر معمولی اہمیت ہے۔ مؤرخین نے صراحت کی ہے کہ ان سب میں خواتین کی علمی مجلسیں منعقد ہوتی تھیں اور وہ باقاعدہ درس دیتی تھیں۔

مسجد حرام میں درس دینے والی خواتین میں ام محمد سارہ بنت عبدالرحمن المقدسیۃ،مسجد نبوی میں درس دینے والی خواتین میں ام الخیر وام محمد فاطمہ بنت ابراہیم بن محمود بن جوھر البعلبکی المعروف بالبطائحی،قاضی القضاۃ شیخ تقی الدین سلیمان بن حمزہ کی بیوی زینب بنت نجم الدین اسماعیل المقدسیۃ، ام محمد زینب بنت احمد بن عمر المقدسیۃ اورمسجد اقصیٰ میں درس دینے والی خواتین میں ام الدرداء التابعیۃاورام محمد ھدیۃ بنت علی بن عسکر البغدادی (۸ ؍ ویں صدی ہجری) شہرت رکھتی ہیں۔

اسلامی تاریخ میں دمشق کی مسجد اموی کی بھی غیر معمولی اہمیت ہے۔ اس میںبھی خواتین کی درس و تدریس کی مجلسیں قائم ہوتی تھیں۔ابن بطوطہ نے اپنے سفر نامے میںلکھاہے کہ اس نے مسجد ِ اموی کی زیارت کی اور وہاں متعدد خواتین ،مثلاً زینب بنت احمد بن ابراہیم اور عائشہ بنت محمد بن مسلم الحرّانیۃ سے حدیث کی سماعت کی۔

خواتین۔ اکابرِ امت کی معلّمات

اسلام کے دورِ عروج میںخواتین کے افادہ کا دائرہ بہت وسیع تھا۔ان سے دیگر خواتین بھی استفادہ کرتی تھیں اور مرد بھی فیض اٹھانے میںپیچھے نہیں رہتے تھے۔ اس پر نہ صحابہ اور تابعین نے نکیر کی اور نہ بعد کی صدیوں میں محدثین اور فقہاء نے کبھی اس پر پابندی عائد کرنے کی کوشش کی۔ خواتین کے فخر کے لیے یہ بات کافی ہے کہ ان کی مجلسوں میں بڑے بڑے علماء و فقہاء و محدثین حاضر ہوتے تھے اور ان سے استفادہ کرتے تھے ۔یہاں تاریخِ اسلام کی چند اہم شخصیات اور ان کی معلّمات کا تذکرہ کیا جاتا ہے :

امام ذہبیؒ (م۷۴۸ھ)نے اپنی کتاب معجم شیوخ الذھبیمیں،اسی طرح علامہ ابن حجرؒ (م۸۵۲ھ) نے اپنی کتاب المعجم المؤسس للمعجم المفہرس میں اپنی بہت سے معلّمات اور شیخات کا ذکر کیاہے۔انہوں نے الدرر الکامنۃ في أعیان المائۃ الثامنۃاور انباء الغمر فی أنباء العمر میں بہت سی خواتین کا تذکرہ کیاہے۔ان کے شاگرد علامہ سخاویؒ (م۹۰۲ھ)نے اپنی کتاب الضوء اللامع لأھل القرن التاسع کی ایک جلد خواتین کے لیے خاص کی ہے۔ انہوں نے ایک ہزار ستّر(۱۰۷۰)خواتین کا تذکرہ کیاہے، جن میں سے زیادہ تر محدثات و فقیہات تھیں۔ علامہ جلال الدین سیوطیؒ(م ۹۱۱ھ)نے متعدد خواتین سے علم حاصل کیا۔ مثلاً ام ہانی بنت الھووینی، ام الفضل بنت محمد المقدسی، خدیجہ بنت ابی الحسن المقن، نشوان بنت عبداللہ الکنانی،ھاجر بنت محمد المصریۃ، امۃ الخالق بنت عبداللطیف العقبی وغیرہ ۔ انہوں نے اپنی معجم اور دیگر مؤلفات میں ان کا تذکرہ کیا ہے اور ان کی روایات بیان کی ہیں۔علامہ ابن حزمؒ(م۴۵۶ھ) کی تعلیم وتربیت میں متعدد خواتین کا اہم کردار ہے، جنہوں نے انہیں قرآن کریم کی تعلیم دی،لکھنا پڑھنا سکھایا اور ان میں شعری ذوق پیداکیا۔ اس کا ابن حزمؒ نے برملا اعتراف کیاہے۔خطیب بغدادیؒ (م۴۶۳)نے طاہرہ بنت احمد بن یوسف التنوخیہ سے سماعت کی، جو بڑی محدثہ اور فقیہہ تھیں۔ جلیلۃ بنت علی بن الحسن الشجری نے عراق اور شام کا سفر کیا توعلامہ سمعانیؒ (م۵۶۲ھ)اور دیگر علمائے کبار نے ان سے فیض اٹھایا۔ابوعمر ومسلم بن ابراہیم الازدی الفراھیدیؒ(م ۲۲۲ھ) نے ستّر(۷۰) خواتین سے روایت کی ہے۔اس طرح ابوالولیدہشام بن عبدالملک الطیالسیؒ(م۲۲۷ھ) کے شیوخ میں بھی ستّر (۷۰) خواتین کا نام ملتاہے۔ حافظ ابن عساکرؒ (م۵۷۱ھ) نے جن خواتین سے استفادہ کیا اور ان سے احادیث روایت کیں ان کی تعداد اسّی(۸۰)سے متجاوزہے۔ ابوعبداللہ محمد بن محمود بن النجارؒ(م ۶۴۳ھ) کے اساتذہ اور شیوخ میں تین ہزار (۳۰۰۰) مرد اور چار سو (۴۰۰) خواتین تھیں۔حافظ ابن حجر ؒ نے تقریب التہذیب میں تیسری صدی ہجری کے اوائل تک آٹھ سو چوبیس(۸۲۴) خواتین کے نام ذکر کیے ہیں، جنھیں روایتِ حدیث میں شہرت حاصل تھی ۔ علم حدیث کی اشاعت و ترویج کے میدان میں زمانہ کے اعتبار سے بھی کتابیں لکھی گئی ہیں، مقام کے اعتبار سے بھی اور عمومی انداز میں بھی۔ڈاکٹر محمد اکرم ندوی (آکسفورڈ) نے محدثات پر غیر معمولی اور زبردست کام کیا ہے۔ انہوں نے چالیس جلدوں میں دس ہزار سے زائد ایسی خواتین کا تذکرہ جمع کردیاہے جنہوں نے چودہ سو برس کے عرصے میں حدیث ِنبوی کی روایت ، تعلیم وتدریس اور تصنیف و تالیف کی خدمت انجام دی ہے۔ان کی کتاب کا نام ہے: الوفاء في أسماء النساء: تراجم نساء الحدیث النبوی الشریف۔ اس کی پہلی جلدحال میں شائع ہوئی ہے۔ بقیہ جلدوں کی اشاعت ابھی ہونی ہے، البتہ اس کا مقدمہ انگریزی زبان میں Al-Muhaddithat(The women Scholars in Islam) کے نام سے شائع ہوگیا ہے۔

علم حدیث کے علاوہ اسلامیات کے دیگر میدانوں، مثلاً تفسیرِ قرآن ،علم قراء ت اور فقہ میں بھی خواتین کی عظمت مسلّم تھی ۔مشہور تابعیہ حضرت ام الدرداء الصغریٰ ، جن کا نام ھجیمۃ بنت حیی الاوصابیۃ تھا ، انہیں علم قراء ت میں مہارت حاصل تھی۔[ ابن الجزری المقری، غایۃ النہایۃ فی طبقات القرّاء )فاطمہ نیشاپوریہ(چوتھی صدی ہجری) حافظۂ قرآن ، عالمہ ، مفسّرہ، اور فقیہہ کی حیثیت سے مشہور ہوئیں۔ انھیں علم ِ قراء ت میں بھی کمال حاصل تھا۔ حج کے لیے مکہ مکرمہ تشریف لے گئیں تو وہاں درس دینا شروع کیا۔ رفتہ رفتہ ان کا حلقۂ درس وسیع ہوتا گیا اور ان کی شہرت دور دراز علاقوں تک پہنچ گئی ۔ اسی وجہ سے انھیں ’ مفسّرہ فاطمہ نیشاپوریہ ‘ کہا جاتا تھا۔ام العز بنت محمد بن علی بن ابی غالب العبدری الدانی(۶۱۰ھ) کو قراء اتِ سبعہ میں مہارت حاصل تھی۔ خدیجۃ بنت ہارون (م۶۹۵ھ) عمدہ قاریہ تھیں ۔ ان کو قراء اتِ سبعہ میں مہارت حاصل تھی۔ فنِ قراء ت کی کتاب ’الشاطبیۃ‘ انہیںپوری ازبر تھی۔ خدیجۃ بنت قیم البغدادیۃ(م۶۹۹ھ) قرآن مجید کی بہت عمدہ قاریہ تھیں ۔ بہت سے لوگوں نے ان سے تجوید اور قراء ت کا علم حاصل کیا تھا۔ وعظ و ارشاد کی مجلسیں منعقد کرتی تھیں، جن میں لوگ بڑی تعداد میں شریک ہوتے تھے ۔سلمیٰ بنت محمد الجزری( نویں صدی ہجری) اپنے وقت کی مشہور قاریہ تھیں ۔ دس(۱۰) قراء توں کے ساتھ قرآن پڑھتی تھیں۔[ بدوی خلیل ، شھیرات النساء،ص۱۴۵] فاطمہ بنت محمد بن یوسف بن احمد بن محمد الدیروطی (نویں صدی ہجری) بڑی عالمہ و فاضلہ خاتون تھیں۔ انھیں علمِ قراء ت میں مہارت حاصل تھی ۔ ان سے عورتوں اورمردوں کی ایک بڑی جماعت نے استفادہ کیا۔امۃ الواحد بنت الحسین بن اسماعیل(م ۳۷۷ھ)فقہ شافعی میں غیر معمولی درک رکھتی تھیں۔ اس کے علاوہ علم الفرائض، حساب اور نحو کی بھی ماہر تھیں۔ حدیث کی بھی روایت کرتی تھیں۔ فاطمہ البغدادیۃ کو فقہ حنبلی کے تمام اصول و فروع میں خوب مہارت حاصل تھی۔ انہیں علامہ ابن قدامہؒ المقدسی کی کتاب المغنيپوری ازبر تھی۔ ان سے فقہ حنبلی کے بارے میں کوئی سوال کیاجاتاتو اس کا نصوص کی روشنی میں جواب دیتی تھیں۔ انہوں نے فقہ کی تعلیم علامہ ابن تیمیہؒ(م۷۲۸ھ) سے حاصل کی تھی۔ ست الوزراء (م۶۳۷ھ) کو فقہ حنفی میں مہارت حاصل تھی۔ انھوں نے امام ابو حنیفہ ؒ (م ۱۵۰ھ)کی فقہ کا زیادہ تر حصہ یاد کر رکھا تھا۔

خواتین کا ایک اہم ترین اعزاز

علم حدیث کے میدان میں خواتین کے شرف اور فخر کے لیے یہ بات کافی ہے کہ جہاں احادیث کی روایت کرنے والے مردوں کی بڑی تعداد پر وضعِ حدیث کا الزام لگایا گیا ہے اور ضعف کی وجہ سے ان کی روایات قبول نہیں کی گئی ہیں، وہاں ایک عورت بھی ایسی نہیں پائی گئی جو اس ’عیب‘ سے داغ دار ہو۔ امام الجرح والتعدیل علامہ شمس الدین ذہبیؒ(م۷۴۸ھ) نے صاف الفاظ میں اس کی شہادت دی ہے۔ انہوں نے لکھاہے:

وما علمت فی النساء من اتّھمت ، ولامن ترکوھا (ذہبی،میزان الاعتدال، ۴؍۶۰۴)

’’مجھے نہیں معلوم کہ روایتِ حدیث میں ایک بھی عورت متّہم ہوئی ہو اور نہ محدثین نے ضعف کی وجہ سے کسی ایک عورت کو ترک کیاہے۔‘‘

خواتین : مردوں سے آگے

تاریخِ اسلام میں ایسی بھی بہت سی مثالیں ملتی ہیں کہ کتاب و سنت کے فہم اور علوم اسلامیہ کی نشر و اشاعت میںخواتین کا کردار مردوں سے بڑھ کررہا ہے۔ اس طرح انھوں نے عملی طور پر ثابت کردیا ہے کہ عورتوں کے ’ناقص العقل‘ ہونے کا مطلب یہ نہیں کہ ان کے اندرفہم و استنباط اور ابلاغ و ترسیل کی صلاحیتیں مردوں سے کم تر ہوتی ہیں۔یہاں چند ایسی ممتاز خواتین کا تذکرہ دل چسپی سے خالی نہ ہوگا :

مشہور تابعیہ حضرت حفصہ بنت سیرینؒ (۱۰۱ھ) بلند پایہ کی محدثہ تھیں ۔ فہم ِ قرآن میں بھی ان کا مقام بہت اعلیٰ تھا۔ علم قرا ء ت میں ان کو اس قدر مہارت حاصل تھی کہ جب ان کے بھائی محمد بن سیرینؒکو کوئی مشکل پیش آتی تو فرماتے: ’’حفصہ سے پوچھو کہ وہ کیسے پڑھتی ہیں؟‘‘

شیخہ صالحہ(چھٹی صدی ہجری)، عبدالواحد بن محمد بن علی بن احمد الشیرازی(جو ابوالفرج کے لقب سے مشہورتھے)کی صاحب زادی اور زین الدین علی بن ابراہیم بن نجا(جو ابن النجیّہ کے نام سے معروف تھے)کی والدہ تھیں۔شیخ ابوالفرج اپنے وقت میں شام کے مشہور شیخ اور فقہ حنبلی کے امام تھے۔ فقہ میں ان کی متعدد تصانیف ہیں۔انہوں نے کتاب الجواھر کے نام سے تیس (۳۰) جلدوں میں ایک تفسیر لکھی تھی۔ ان کی صاحب زادی نے وہ پوری تفسیر یادکرلی تھی۔ زین الدین بیان کرتے ہیں کہ میں اپنے ماموں سے تفسیر پڑھتاتھا۔ جب میں اپنی والدہ کے پاس آتا تو وہ مجھ سے دریافت کرتیں کہ آج تمہارے ماموں نے کس سورہ کی تفسیر بیان کی؟اور انہوں نے کیا کیا باتیں بتائیں؟ جب میں ان سے بتاتا تو وہ پوچھتیں کہ فلاں سورہ کی تفسیر میں انہوں نے فلاں بات بتائی کہ نہیں؟میں جواب دیتا : نہیں، تو وہ فرماتیں:تمہارے ماموں نے فلاں آیت کی تفسیر میں فلاں فلاں باتیں چھوڑ دی ہیں۔

فاطمہ بنت محمد بن احمد السمرقندی(م ۵۸۱ھ) فقہ حنفی میں بہت شہرت رکھتی تھیں ۔ ان کے والد مشہور محدث اور فقیہ تھے۔ فاطمہ نے ان سے فقہ کی تعلیم حاصل کی اور اس میں کمال پیداکیا۔ انہیں اپنے والد کی کتاب تحفۃ الفقہاء پوری ازبر تھی۔ فقہ میںا ن کی مہارت کا اندازہ اس سے لگایا جاسکتاہے کہ ان کے والد کے پاس کوئی استفتاآتاتو وہ اپنی صاحب زادی سے مشورہ کرتے تھے،پھر وہ جواب تیار کرتیں اور اس پر باپ اور بیٹی دونوں کے دستخط ہوتے۔ فاطمہ کا نکاح ان کے والد نے اپنے عزیز شاگرد علائو الدین ابوبکر بن مسعود الکاسانی سے کردیا تھا ۔کاسانی کو ان کی تصنیف بدائع الصنائع في ترتیب الشرائع کی وجہ سے علمی دنیا میں بہت شہرت حاصل ہوئی۔ فاطمہ کا علمی فیض نکاح کے بعد بھی جاری رہا۔وہ اپنے گھر میںدرس کے حلقے لگاتی تھیں۔ ان سے بہت بڑی تعداد میں لوگوں نے استفادہ کیا۔شیخ کا سانی بہت بڑے فقیہ تھے۔ ان کا لقب’ملک العلماء‘ تھا، لیکن ان کی بیوی فاطمہ ان سے بڑھ کر تھیں۔ سوانح نگاروں نے لکھاہے:

’’وہ (حنفی)مسلک کی بہت اچھی طرح ترجمانی کرتی تھیں۔ ان کے شوہر کا سانی کو بسااوقات کوئی مسئلہ بیان کرتے ہوئے وہم ہوجاتاتو فاطمہ اس کی تصحیح کردیتی تھیں اور انہوں نے کیا غلطی کی ہے یہ بھی بتادیتی تھیں۔ چناںچہ کاسانی ان کی تصحیح کوقبول کرلیتے تھے۔‘‘

علم حدیث کے میدان میں شیخ ابوالحجاج جمال الدین یوسف المزّی (م ۷۴۲ھ)کی خدمات سے اسلامیات سے دل چسپی رکھنے والا ہر طالب علم اچھی طرح واقف ہے۔ خاص طور سے فن اسماء الرجال میں انہیں یدِطولیٰ حاصل تھا۔ ان کی تصانیف: تہذیب الکمال في أسماء الرجال، تحفۃ الأشراف بمعرفۃ الأطراف اور المنتقی من الفوائد الحسان فی الحدیث اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہیں۔شیخ مزی کو جتنی مہارت اور شہرت علم حدیث اور رجال کے میدان میں تھی، اتنی ہی، بلکہ اس سے زیادہ مہارت اور شہرت سے ان کی زوجہ عائشہ بنت ابراہیم بن صدیق (جو ام فاطمہ کے لقب سے مشہور تھیں) کو حاصل تھی۔ علم تجوید و قراء ت ِ قرآن کے میدان میں بہرہ ور تھیں۔ وہ بہترین قاریہ تھیں۔ ۷۴۱ھ میں اسّی(۸۰)برس کی عمر میں ان کا انتقال ہوا۔ نصف صدی سے زائد عرصہ انہوں نے قرآن کی تعلیم و تدریس میں گزارا اور ہزاروں مردوں اور عورتوں نے ان سے استفادہ کیا۔ ان سے یہ فن سیکھنے والوں میں ان کی صاحب زادی امۃ الرحیم زینب بھی تھیں،جو مشہور مفسر، محدث اور مؤرخ علامہ ابن کثیر الدمشقیؒ (م۷۷۴ھ) کی زوجہ تھیں۔ ابن کثیرؒ جہاں شیخ مزی کے مشہور تلامذہ میں سے ہیں، وہیں انہوں نے اپنی خوش دامن صاحبہ سے بھی علمی استفادہ کیاتھا۔ ابن کثیرؒ نے ان کا تذکرہ بڑے اچھے انداز میں کیاہے:

’’اپنے زمانے کی عورتوں میں کثرتِ عبادت، تلاوت ِ قرآن اور فصاحت و بلاغت اور صحیح ادا کے ساتھ قرآن پڑھانے کے معاملے میں کوئی دوسرا ان کا ہم سر نہ تھا۔ انہوں نے بہت سی عورتوں کا قرآن ختم کروایا اور بے شمار عورتوں نے ان سے قرآن پڑھا۔‘‘

ان کے بارے میں ابن کثیرؒ کے اس جملے نے توچونکادیا:

’’ان کی طرح کی قراء ت کرنے سے بہت سے مرد حضرات عاجز تھے۔‘‘ (ابن کثیر ،البدایۃ والنھایۃ،دا ر احیاء التراث العربی، ۱۹۸۸ء،۲۱؍۱۱۳)

خواتین اور تصنیف و تالیف

البتہ جہاں تک علوم اسلامیہ میں تصنیف و تالیف کا معاملہ ہے، اس سلسلے میں خواتین بہت پیچھے رہی ہیں۔ شیخ محمد خیر رمضان یوسف نے تذکرہ و تراجم کی کتابوں میں بہت غائرانہ انداز سے تفتیش و تفحّص کے بعد اپنی کتاب المؤلِّفات من النساء ومؤلَّفاتھن في التاریخ الاسلاميمیں ۱۲۰۰ھ تک چھتیس( ۳۶) مؤلّفات کا تذکرہ کیا ہے اور لکھا ہے کہ ان کی کتابوں کی تعداد عربی زبان میںسو (۱۰۰) سے زیادہ نہ ہوگی۔[محمد خیر رمضان یوسف ، المؤلفات من النساء ومؤلفاتھن فی التاریخ الاسلامی،دارابن حزم بیروت، ۲۰۰۲ء، ص ۵-۶] انہوں نے اس موضوع پر بھی اظہارِ خیال کیاہے کہ خواتین کی جانب سے تصنیف و تالیف میں کمی کے اسباب کیاہیں ؟ انہوں نے تین اسباب بیان کیے ہیں:

۱- تصنیف وتالیف ذہنی سکون واطمینان اور کسی حد تک فرصت وفراغت کا تقاضا کرتی ہے،جب کہ خواتین اپنی فطری مصروفیات ، مثلاً حمل ، ولادت، رضاعت، بچوں کی پرورش اور گھریلو کاموں میں مصروفیت وغیرہ کی وجہ سے بیش تر اوقات اس سے عموماً محروم رہتی ہیں۔

۲-خواتین کی رغبت عموماً تحریر وتصنیف کے مقابلے میں کہنے سننے کی طرف زیادہ رہتی ہے۔اسی لیے ان کی صلاحیتوں کا اظہار شاعری، ادب، لغت اور انسانی و وجدانی علوم میں دیگر میدانوں کے مقابلے میں زیادہ ہواہے۔ علم حدیث کی بنیاد سماع وروایت پر ہے، اس کے لیے تحریر شرط نہیںہے، اسی لیے اس میں خواتین کی صلاحیتوں کا غیر معمولی اظہار ہواہے اور ہزاروں کی تعداد میں محدّثات پیداہوئی ہیں۔

۳-خواتین کی بہت سی تصنیفات، جو ایک عرصہ تک امت کے درمیان متداول تھیں ،حوادث ِ زمانہ کی نذر ہوگئیں اور مورخین اور تذکرہ وتراجم کی کتابیں تالیف کرنے و الوں نے ان صاحب ِتصنیف خواتین کے حالات لکھنے سے تغافل برتا۔اس لیے کہ عموماً پردہ نشیں خواتین کے حالات جمع کرنے میں بہت دشواریاں تھیں۔lll

[محمد خیر رمضان یوسف ، المؤلفات من النساء ص۱۳۔۱۵)

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں