عمارتی کتّا

محمد طارق

شہر کی قومی شاہراہ پر دلکش عمارت کے بڑے سے آہنی جالی دار پھاٹک کے اندر اسٹیل کی چمکتی زنجیر سے بندھے دودھ جیسے سفید کتے کو دیکھ کر دو آوارہ کتے ہمیشہ رشک کیا کرتے تھے۔
کتے کے گلے میں سیاہ چرمی پٹا تھا جو اس کے سفید رنگ پر خوب جچتا تھا۔ دونوں آوارہ کتوں کو پٹا اتنا بھا گیا تھا کہ ان کے جی میں آیا کہ وہ کسی طرح سفید کتے کے گلے کا پٹّا اتار کر خودپہن لیں مگر کتوں کے ہاتھ نہیں ہوتے، اس لیے وہ ہاتھ کی صفائی نہیں کر سکتے تھے۔
بہرحال دونوں آوارہ کتے اکثر دلکش عمارت کے گیٹ پر آتے ۔ منھ پھاڑے زبان نکالے کھڑے ہو کر کتے کے رہن سہن کا ، کھانے پینے کا اس وقت تک مشاہدہ کرتےرہتے جب تک کہ چوکیدار انھیں ڈنڈے مار کر بھگا نہیں دیتا ۔
کیاؤں … کیاؤں کرکے دونوں آوارہ کتے بھاگتے ہوئے خود پر افسوس کیا کرتے۔
’’ہم بھی کتے ہیں اور وہ بھی ہمارے جیسا ہی ایک کتا ، صرف اس کے گلے میں پٹّا ہے — ’’پٹا‘‘ کتے کی زندگی کو کتنا بدل دیتا ہے۔ کتنی پر تعیش ہو جاتی ہے پٹے سے کتے کی زندگی! کاش! کوئی ہمارے گلے میں بھی پٹا ڈال دیتا تو ہماری زندگی بھی ایسی ہی عیش سے گزرتی۔ ہماری سیوا کے لیے انسان ہوتے ۔ رہنے کے لیے مکان اور سونے کے لیے بستر، ہمیں جھوٹن نہیں کھانی پڑتی۔ نالیوں کا غلیظ پانی ہم نہیں پیتے۔ کتنی پر تعیش ہوتی ہیں پٹے والے کتوں کی زندگیاں! انھیں شمپو سے نہلایا جاتا ہے ۔ گھر کی عورتیں بھی ان سے پیار کرتی ہیں۔ بچے اُن کے ساتھ کھیلتے ہیں۔ ہمیں تو گلی کے آوارہ بچے بھی پتھر مارتے ہیں ۔ ’’کیاؤں‘‘ کر کے ہم تین پاؤں پر چلنے کی اداکاری کرتے ہوئے بھاگ جاتے ہیں۔ اداکاری کا گُر ہم نے انسانوں سے سیکھا ہے۔ اس کے علاوہ ہم نے انسانوں سے کچھ نہیں سیکھا ۔ ویسے آج کے ترقی یافتہ انسانوں کے پاس سیکھنے کے لیے بچا ہی کیا ہے سوائے شر کے — ہاں، انسانوں نے ہم سے بہت کچھ سیکھ لیا ہے۔ بھونکنا، غرانا، دم ہلانا، رال ٹپکانا — ، کاش! انسان ہم سے تھوڑی سی وفاداری بھی سیکھ لیتا۔‘‘
دونوں آوارہ کتے اپنے احساسات ایک دوسرے سے بیان کرتے۔دلکش عمارت کے کتے کی زندگی پر تبصرہ کرنا جیسے اُن کا معمول بن چکا تھا۔
آج بھی حسب معمول شہر کی عالیشان کچہری کے میدان میں دونوں آوارہ کتے دلکش عمارت کے کتے کی زندگی پر تبصرہ کرتے ہوئے اپنے احساسات اُن کتوں کے سامنے پیش کر رہے تھے، جنھوں نے دلکش عمارت کے کتے کو نہیں دیکھا تھا۔ تبصرہ کرتے ہوئے وہ کچہری کی طرف بھی دیکھ رہے تھے جس کے دروازے بند تھے۔
رات کے ساڑھے بارہ بچ چکے تھے۔ قدیم آسمان پر برسوں پرانے ستارے حسب معمول ٹمٹما رہے تھے ۔ چاند اپنا آدھا چہرہ چھپائے چمک رہا تھا۔
آسمان کے نیچے کچہری کے میدان کے کنارے فاصلے سے کھڑے الکٹرک پول پر لگے برقی قمقموں کی دودھیا روشنی میں کتوں نے دیکھا کہ ایک سفید کتا ان کی طرف پر بدحواس دوڑا چلا آ رہا ہے………
جیسے ہی وہ کتا آوارہ کتوں کے جھنڈ کے قریب آیا ۔ دوکتوں کو چھوڑ کر سارے آوارہ کتے اس پر بھونکنے لگے کیوں کہ اس کے بدن سے شمپو کی مہک آرہی تھی۔
’’مت بھونکو بھائیو! اپنے غصے پر قابو رکھو!‘‘ نہ بھونکنے والے دوکتوں میں سے ایک بولا۔
’’ہاں— ،بھونکنا بند کرو میرے بھائیو ! میری بات سنو، یاد رکھو ہم انسان نہیں کتے ہیں۔ ہمیں اس بات کا خیال رکھنا چاہیے کہ یہ کتا ہمارے لیے اجنبی ضرور ہے لیکن ہے تو کتا ہی۔ آپ سب اس کے ساتھ انسانوں جیسا برتاؤ کیوں کر رہے ہو ، شرم کرو، شرم ! ہم آپ کو اسی کے بارے میں تو بتا رہے تھے۔‘‘ دوسرا نہ بھونکنے والا آوارہ کتا اپنے ساتھیوں سے بولا۔ پھر دلکش عمارت کے کتے سے مخاطب ہوا ۔
’’کیوں بھائی ! تم وہی دلکش عمارت کے کتے ہونا!‘‘’’ہاں— ہاں— ، میں وہی کہتا ہوں!‘‘ دلکش عمارت کے کتے کے لہجے میں خوف نمایاں تھا ۔
’’ہوں— !‘‘ آوارہ کتے نے ہنکارا بھرا اور پوچھا تمہارے گلے کا پٹا کہاں گیا۔ وہ سیاه چرمی پٹا— ! تمہاری گردن میں خوب جچتا تھا۔‘‘
’’ ہاں— ‘‘ دلکش عمارت کا کتا افسردہ لہجہ میں بولا: ’’مگر وہ پٹا میرے مالک نےاتار لیا اور مجھے ڈنڈے مار کر بھگا دیا۔‘‘
’’کیا تم نے اپنے مالک سے بے وفائی کی تھی؟‘‘ آوارہ کتے نے پوچھا ۔
’’ نہیں— !‘‘ دلکش عمارت کے کتے کی آواز بھراگئی تھی۔’’میں تو اپنے مالک کا وفادار رہا، ایمان داری سے رات رات جاگ کر مالک کے عالیشان گھر کی چوکیداری کرتا رہا۔ یہی نہیں مجھ میں ’’عمارت پریم‘‘ اتنا تھا کہ عمارت کے ہر فرد کے سامنے دم ہلاتا رہتا۔ وہ فرد اچھا ہے یا برا، شریف ہے یا کمین اس سے مجھے کوئی سروکار نہیں تھا۔ بس دم ہلانا میرا کام تھا— میرا فرض، جو میں بحسن و خوبی انجام دیا کرتا تھا اور اس شخص پر بھونکنا میرے لیے فرضِ عین تھا جو عمارت کے مالک کے کسی فرد کو ٹیڑھی آنکھ سے بھی دیکھ لیتا— ایسا تھا میرا ’’عمارت پریم‘‘ ! وہ سرد آہ کھینچ کرپھر بولا ’’ہائے عمارت پریم ! ‘‘
’’پھر تم نے ایسا کونسا سنگین جرم کر لیا تھا کہ مالک نے تمہاری وفاداری اور تمہارے عمارت پر یم کو فراموش کرکے ڈنڈے سے تمہاری پٹائی کردی اور گردن سے پٹا اتار کر تمھیں عمارت سے نکال دیا؟‘‘
’’میں نے کوئی جرم نہیں کیا یارو!‘‘
’’پھر کیا تمہارا مالک پاگل ہو گیا تھا ؟!‘‘
’’ہاں— ہاں، وہ پاگل ہی ہو گیا تھا۔ ‘‘
’’ہوا کیا تھا ؟!‘‘ آوارہ کتے نے بے قراری سے پوچھا۔
دلکش عمارت کا کتا کچھ دیر خاموش رہا، اس دوران سارے آوارہ کتے اس کی طرف بغیر پلکیں جھپکائے دیکھتے رہے … چند لمحے خاموش رہنے کے بعد دلکش عمارت کے کتے نے حقیقت بتائی۔’’ارے بھئی! تمہارے جیسے ہی ایک آوارہ کتے نے پھاٹک میں بیف ڈال دیا تھا۔ وہ بیف میں نے کھایا میرے مالک نے مجھے بیف کھاتا دیکھ لیا۔ پھر کیا تھا اس کا طیش ساتویں آسمان پر پہنچ گیا۔ اس پر ایسا جنون سوار ہوا کہ مجھ پر ڈنڈے برسانے شروع کردئے…. مجھے جی بھر کے پیٹنے کے بعد اس نے میرے گلے کا پٹا اتار کر عمارت سے بھگا دیا۔ اپنے اس وحشیانہ سلوک کا اس نے اپنے غلام کے ذریعہ ویڈیو بھی بنایا اور سوشل میڈیا پر ڈال دیا— خدا جانے اس نے ایسا کیوں کیا۔ کسی لیے کیا؟!‘‘ یہ کہہ کر دلکش عمارت کا کتا خاموش ہو گیا۔
دلکش عمارت کے کتے کی روداد سن کر سارے آوارہ کتے قہقہے لگانے لگے … کتوں کے قہقہے کچہری کے میدان میں گونجے۔ کچہری کےبند دروازوں سے ٹکرائے اور فضا میں معدوم ہو گئے۔
قہقہے لگا کر آوارہ کتوں میں سے ایک کتا چہکتے ہوئےبولا:’’ رب کا شکر ادا کر بھائی، جس نے تجھے کتا بنایا، اگر تو انسان ہوتا نا تو تیرا مالک تجھے مار ہی ڈالتا سمجھا!‘‘
’’ایسا— !؟ دلکش عمارت کے کتے کی آنکھیں حیرت سے پھٹ گئیں اور پھر وہ متحیرانہ نگاہوں سے آوارہ کتوں کو دیکھنے لگا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں