عورت،سماجی تبدیلی اور ذمہ داریاں

جویریہ صدف

تبدیلی ایک فطری عمل ہے۔ایک عشرہ گزرتے ہی دنیا میں سماجی اور معاشرتی سطح پر کچھ نہ کچھ تبدیلی محسوس ہونے لگتی ہے۔ پھر ایک نسل کے بعد دوسری نسل نمایاں تبدیلی کے ساتھ آتی ہے ۔ تاہم80کے عشرے سے لے کر اب تک آنے والی تبدیلی، بلاشبہ ایسی بڑی تبدیلی ہے جسے ہر کوئی محسوس کر رہا ہے۔ ظاہر ہے اس تبدیلی کے بڑے عوامل میں سے ایک ٹکنالوجی کی ترقی ہےاور میڈیا نے اس میں مرکزی کردار ادا کیا ہے۔معلومات کی ایک یلغار ہے، جو ہر طرف سے ذہنوں تک پہنچ کر انھیں متاثر کر رہی ہے ۔ پھر تیزرفتار گلوبلائزیشن کے اس عمل میں ہر طبقہ نے اپنی سمجھ، عقل اور استعداد کے مطابق خودکو آگے بڑھایا اور اپنے اہداف حاصل کرنے کی پوری کوشش کی ۔
عورت نہ صرف نسلوں کی آبیاری کرتی ہے، بلکہ ان کے ذہن و فکر پر بہت گہرے اثرات بھی مرتب کرتی ہیں۔ موجودہ دور نے انسانی معاشرہ کے اس نصف کو بھی بہت زیادہ متاثر اور تبدیل کیا ہے۔ اس تبدیلی میں جہاں ان عوامل کا اثر ہے،جنہوں نے عام سماج کو متاثر کیا، وہیں عالمی طاقتوں کی منظم و منصوبہ بند کوششوں کا خاص حصہ ہے جو انہوں نے اپنے خاص ایجنڈے کے تحت انجام دی ہیں اور دے رہے ہیں۔ ان طاقتوں میں سیاسی ادارے بھی شامل ہیں اور وہ ادارے بھی ہیں جو سماجی خدمت کے میدان میں کام کر رہے ہیں۔
1945ء میں اپنی تشکیل کے ساتھ ہی اقوام متحدہ نے انسانی حقوق اور خواتین کے حقوق کے لئے کمیشن بنائے۔ بعدازاں خواتین کے حقوق کی مناسبت سے متعدد عالمی کانفرنسیں اور عالمی معاہدے تشکیل دیے گئے۔ دسمبر 1979ء میں خواتین کو استحصال سے نجات دلانے کا معاہدہ طے کیا گیا، جس کے تحت عورت کے خلاف امتیازی سلوک و قوانین کے خاتمے اور عورت کو معاشی ، سماجی ، آزادی ، اسقاطِ حمل اور شادی ختم کرنے کے یکساں اختیارات جیسے حقوق پر بات کی گئی ہے۔ اس معاہدے کی بنیاد مرد اور عورت کے درمیان مساوات پر رکھی گئی۔ پھر نہ صرف پہلے سے قائم تنظیموں اور اداروں نے ان عنوانات کو اپنے پروگراموں میں شامل کیا ، بلکہ بہت سی نئی این جی اوز کو یہ ایجنڈا دے کر ترقی پذیر ممالک میں سر گرم عمل کیا گیا ۔ اس ایجنڈے کو آگے بڑھانے کی ایک چھوٹی سی مثال یہ ہے:
نیویارک میں ہونے والے یو این ویمن کے ایگزیکٹو بورڈ کے پہلے عمومی اجلاس 9فروری2016ء میں یواین ویمن ایگزیکٹو ڈائریکٹر نے اپنے کلیدی خطاب میں کہا: ’’ ہمارا2030 ء تک کے لیے مرکزی ایجنڈا ہوگا: جنسی تفریق سے بالاتر مساوات‘ اور ’خواتین کی خودمختاری۔‘‘
اس ایجنڈے کی تکمیل اور حصول مقاصد کے لئے قومی اور عالمی سطح کے سیمینار اور کانفرنسیںہوئیں، تحریروں اور فلموں کے ذریعہ عوام کی ذہن سازی کی جاتی رہی اور اس میں موجودہ میڈیا کلیدی رول ادا کر رہا ہے۔ اس وقت ملک میں دسیوں ہزار این جی اوز کام کر رہی ہیں، جب کہ غیرملکی این جی اوز کی تعداد اس کے علاوہ ہے ۔ اگر چہ ان میں سے بعض صرف کاغذ ی نوعیت کی ہیں ، لیکن کچھ ایسی بھی ہیں جو بلاشبہ سماجی خدمت کے میدان میں کام کرہی ہیں۔ یہ صحت وصفائی و ماحولیات وغیرہ کے حوالے سے کاموں کا بیڑا اٹھانے کا دعویٰ کرتی ہیں۔ ان میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے افراد بھی ہیں اور دائیں بازو سے تعلق رکھنے والے بھی ۔ البتہ خواتین سے متعلق ایشوز کے حوالے سے دیکھا جائے تووہاںپر ہمیں لبرل خیالات کے حامل افرادہی سرگرم نظر آتے ہیں، جو بہت منظم اور مضبوط تنظیموں اوراداروں کی شکل میں متحرک ہیں۔
پچھلے 20برسوں میں ملک کی بڑی یونی ورسٹیوں میں ’ویمن ڈویلپمنٹ‘ اور مطالعہ صنفیات (Gender Studies) کے شعبے کھلے ہیں جن میں خواتین سے متعلق اشوز اور مسائل پر تحقیق کے کام کا آغاز ہوا ہے، لیکن یہاں بحث و تحقیق کی جہات کو دیکھ کر اندازہ ہوتا ہے کہ وہ ایک خاص جہت میں ہی کام کر رہے ہیں۔ ادھرآزاد مگر فکری اعتبار سے مغرب کا غلام تیز رفتار الیکٹرانک میڈیا بھی ’عورت کے موضوع‘ پر یک طرفہ ذہن سازی میں اہم رول ادا کر رہا ہے ۔ عورت اور اس کی خود انحصاری، سماج اور اس کی سابقہ پختہ روایات سے عورت کی بغاوت ، اپنے حقوق کا مطالبہ اور اس کے لیے ڈٹ جانا یعنی عورت بمقابلہ مرد، میڈیا کا مسلسل اور سلگتا ہوا موضوع چلا آرہا ہے ۔
اثرات:
اس ساری صورت حال سے جو نتائج سامنے آئے وہ درج ذیل ہیں :
D مرد اور عورت کے امتزاج سے بننے والے معاشرے کی عمارت میں جہاں مرد و عورت دونوں کو متوازن و مضبوط ستونوں کی حیثیت میں کھڑا نظر آنا چاہیے تھا، وہاں وہ ایک دوسرے کے مد مقابل بن کر کھڑے ہیں ۔
Dمیدان عمل میں جہاں مرد وعورت اس کے ساتھ شریک عمل ہیں، وہاں عورت کو یہ سمجھایا جانے لگا کہ اس معاشرے میں اگر عورت پر کوئی ظلم ہو رہا ہے یا اس کی حق تلفی ہو رہی ہے تو اس کا ذمہ دار صرف اور صرف مرد ہے۔ لہٰذا اسے اپنے حقوق کے لیے مرد کے خلاف ڈٹ جانا چاہیے۔ جبکہ مرد و عورت دونوں کو یہ پیغام پہنچنا چاہیے تھا کہ زندگی تصادم کا نہیں بلکہ سمجھنے، سمجھانے اور باہم چلنے کا نام ہے اورصرف حقوق نہیں بلکہ حقوق و فرائض میں توازن کامیاب زندگی ہے ۔
Dاس باز گشت کے نتیجے میں عورت ’منفی انداز کے شعور آزادی نسواں‘ کاشکار ہونے لگی ،حتیٰ کہ دینی سوچ رکھنے والے بعض گروہوں اور تنظیموں میں بھی کسی درجے میں یہ اثرات پیدا ہونے لگے ۔
D بلاشبہ تعلیم کے یکساں مواقع ، اظہار رائے کی آزادی ، اپنے حقوق کا شعور ، خود اعتمادی ، صحت اور اس کی حفاظت کے مواقع ، زندگی کی دوڑ میں آگے بڑھنے کے یکساں مواقع اور معاشی مضبوطی یہ سب کچھ عورت کا بالکل بنیادی حق ہے اور اسلام نے اسے تسلیم کیا اور دونوں صنفوں میں کسی قسم کے تصادم کے بغیر اس وقت فراہم کیا جب مغرب اور پوری دنیا تاریک ترین دور میں جیتی تھی ۔ لیکن اب ان چیزوں کے حصول کی جد و جہد میں خاندانی نظام کا شیرازہ بکھر گیا اور ترجیحات زندگی اُلٹ پلٹ اور معاشرے کی ترتیب و تنظیم تلپٹ ہو کر رہ گئی ۔
D عورت کے حوالے سے اسلام اور مسلم دنیا کا چہرہ انتہائی بھیانک بناکر پیش کیا گیا اور مسلمانوں کی جہالت اوربدعملیوں کے سبب عورت پرہونے والی زیادتیوں کو جو اسلامی تعلیمات کے قطعا خلاف ہیں، اسلام کے کھاتے میں جان بوجھ کر ڈالا گیا تاکہ لوگوں کو یہ باور کرایا جا سکے کہ اسلام میں عورت پر جسمانی و نفسیاتی مظالم روا رکھے جاتے ہیں اور اس کو کسی طرح کی آزادی حاصل نہیں ہے ۔ اس طرح مسلمانوں کی تمام تر جہالت کو اسلام کے خلاف پرو پیگنڈے کے لیے بطورِ ہتھیار استعمال کیا جاتا ہے۔
اب اہم سوال یہ ہے کہ سماج اور معاشرہ میں جاری تیز رفتار تبدیلی کے اس عمل میں مسلم عورت اپنے تعمیری ایجنڈے کے ساتھ کہیں نظر کیوں نہیں آتی ہے اور اسلام کے وہ پیامبر جو مسلسل اس تحریک کا منصوبہ بند ہدف تھے اور آج بھی ہیں، کہیں اپنے تعمیری ایجنڈے اور اپنی اس آئیڈیالوجی کے ساتھ جو واقعی انسانیت کے مسائل کا حل ہے،اس قوت کے ساتھ کھڑے کیوں نظر نہیں آتے جس قوت کے ساتھ مخالفین کھڑے ہیں؟ اگر بگاڑ کی قوتیں کام کر رہی ہیں تو سدھار کا فارمولہ رکھنے والوں کے لیے بھی میدان کھلا ہے پھر یہ میدان کارزار سے کیوں غائب ہیں؟
اسلام پسند خواتین کے لیے یہ اہم سوالات ہیں جو حقیقت میں قولی نہیں بلکہ عملی جواب کے طلبگار ہیں۔ عورت کے حقوق کے حوالے سے اسلام اورمسلمانوںپر جب بھی یلغار ہوتی ہے تو ہم ان حقوق کا حوالہ دیتے ہیں جو اسلام نے انہیں دیے ہیں اور جن کے ذریعے حقیقت میں اس سنہری دور میں عورت ’’امپاور‘‘ ہوئی جبکہ ہمارا معاشرہ خود ان تعلیمات سے دور ہے جو اسلام نے اس سلسلے میں دی ہیں۔ اب ضرورت اس بات کی ہے کہ مسلم سماج وہ عملی ماڈل دنیا کے سامنے پیش کرے جو عہدِ رسالت میں بنایا گیا تھا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں