عورتوں کا شہر، محض عورتوں کا، جن میں مردوں کا نام و نشان تک نہ ہو۔جی ہاں، اس سرزمین پر کسی زمانے میں ایک ایسی بستی بھی آباد ہوئی تھی، جہاں بجز فرمانروائے مملکت کے کسی مرد کا سایہ تک بھی نہ پڑسکتا تھا۔ اعلیٰ سے لے کر ادنیٰ ملازمہ تک اور سپہ سالار سے لے کر معمولی پیادے تک تمام عہدیدار صنف نازک ہی کے دائرے تک محدود تھے۔
اس عجیب وغریب شہر کا بانی ناصرالدین خلجی تھا جس نے پہلے تو اپنے باپ سلطان غیاث الدین کی طویل عمر سے عاجز آکر اس کو تین مرتبہ زہر دیا۔ پہلی دو کوششوں میں تو وہ کامیاب نہ ہوسکا لیکن تیسری مرتبہ بوڑھے باپ نے خود ہی بیٹے کی خواہش پورا کرنے کے لیے علاج معالجہ سے انکار کردیا اور تخت چھوڑ کر قبر میں جاسویا۔ ’’سعادت مند‘‘ فرزند نے اس ’قتلِ عمد‘ کا داغ مٹانے کے واسطے اعلان کردیا کہ میری بقیہ عمر صلح و آشتی میں بسر ہوگی۔ خود بھی آرام و چین کی زندگی بسر کروں گا اور رعایا کو بھی امن و سکون کا تحفہ دوں گا۔ چنانچہ جس طرح شاہجہاں ہمہ تن عمارت سازی اور آرائشِ گلستانی میں منہمک رہتا تھا، اسی طرح اس بادشاہ نے بھی ایک عجوبہ روزگار شہر کی تعمیر کا منصوبہ بنایا۔ سب سے پہلے سلطنت کی تمام خوبصورت عورتوں اور لڑکیوں کی ایک فہرست تیار کی گئی۔ پھر ان کو مختلف کام اور عہدے سونپے گئے۔ شاہی محل سے متصل ایک خوبصورت شہر تعمیر کیا گیا جس کے بازار، خیاباں، چمن، حوض اور تالاب دیکھنے سے تعلق رکھتے تھے۔ صاف شفاف پانی میں کنول کے پھول اور حوض میں سنہری مچھلیاں دل لبھانے کے واسطے کافی تھیں کہ ایک پہاڑی پر آبشارتعمیر کرکے اس کے ایک پہلو کو پانی کی سفید چادر سے ڈھک دیا۔ پھر دوسری جانب انواع و اقسام کے پھولدار درخت لگا کر ان پر ہزاروں کوئلوں کا مسکن بنادیا، جو اپنی دل نشین سریلی آواز سے دل کے تاروں کو چھیڑتی رہتی تھیں۔ شہر اور باغات میں مصفی اور مسطح سڑکیں چہار جانب پھیلی ہوئی تھیں، جن پر نازنیں خواتین کی سبک رفتار نقرئی گاڑیاں جن میں ہرن اور بارہ سنگے جتے ہوتے تھے، سریلے گھنگھروؤں کی موسیقی کے ساتھ ساتھ رقصاں رہتی تھیں۔
محلات اور مکانات کی ترتیب بھی خاص انداز پر رکھی گئی تھی۔ شہزادیوں کے قصر سنہری رنگ کے تھے، وزارء اور عمالِ سلطنت کی ڈیوڑھیاں نقرئی تھیں۔ فوج اور پولیس کے مکانات سرخ پتھر سے تعمیر ہوئے تھے۔ اسی طرح مختلف طبقوں کی رہائش گاہیں مختلف رنگوں سے مزین تھیں۔ باغات اور ان کی دیواریں سبز تھیں۔ رنگوں کے اس امتزاج نے شہر کو چمن کی طرح سجا رکھا تھا۔
سب سے عجیب بات یہ کہ تمام آبادی میں مسجد، مقبرہ یا خانقاہ کا کہیں نام و نشان تک نہ تھا۔ مکتب و مدرسہ ضرور تھے لیکن ان میں بجائے علوم کے رقص و موسیقی کی عملی تعلیم دی جاتی تھی اور ان فنون میں جو دوشیزہ امتیاز حاصل کرتی، اسے بجائے سند کے ایک طلائی زیور انعام میں ملتا۔ اسی طرح زردوزی، ملمع سازی اور جوہر کاری کے تربیتی ادارے تھے، جہاں ان علوم کی عملی تعلیم دی جاتی جو افزائشِ حسن میں ممدو معاون ثابت ہوں۔
ملکہ معظمہ کا دربار ایک وسیع ہال (بڑا کمرہ) میں جس کے ستون سنگِ مرمر اور فیل پائے آبنوس اور ہاتھی دانت سے بنائے گئے تھے، منعقد ہوتا تھا، درباری لباس کی شان یہ تھی کہ شاہ بانو سے لے کر ادنیٰ کنیز تک تمام لباس مختلف رنگوں اور نمونوں کے ہوتے تھے۔ اسی طرح ہر فرد کو الگ الگ خوشبو استعمال کرنی ہوتی تھی۔ جس سے نہ صرف دیوانِ عام بلکہ گردوپیش کا علاقہ بھی معطر ہوجاتا تھا۔ ہر قسم کے جواہرات اور موتیوں کی آب وتاب سے آنکھیں خیرہ ہوتی رہتی تھیں۔ ملکہ معظمہ کی نشست کے واسطے چاندی کے ستون سے ایک چبوترہ بنایا گیا تھا، جس پر ایک زرنگار تخت رکھا رہتا تھا۔ اس کے برابر ہی ایک مرصع کرسی رکھی رہتی اور جب کبھی بادشاہ سلامت دربار کو رونق بخشنا چاہتے تو اس پر جلوہ افروز ہوتے۔ کارروائی کا آغاز کسی طربیہ نغمے سے ہوتا تھا جس کے بعد ہر مغنیہ اپنے اپنے مخصوص انداز میں سامعین کے کانوں میں رس گھولتی تھی۔ پھر کچھ لطیفے ہوتے، کچھ چٹکلے، کچھ سوانگ کچھ کام کی بات وہاں کوئی نہ ہوتی تھی۔ سال بہ سال فوجی پریڈ بھی ہوا کرتی تھی جس میں ملک معظم اور ملکہ معظمہ کو سلامی دی جاتی اور نذرانے پیش کیے جاتے تھے اور یہ شاہی جوڑا جس سے خوش ہوجاتا اسے کوئی پھبتا ہوا خطاب مثلاً قتالۂ جہاں، نرگس چشم، یا فتنہ دوران عطا کیا جاتا تھا۔ اس طرح نمائش حسن کا بھی بڑا اہتمام ہوتا (اور یہ کہنا غلط نہ ہوگا کہ موجودہ دور کے مقابلۂ حسن کا بانی ہندوستان کا یہ مسلم فرمانروا ہی تھا) اور جو خواتین بادشاہ کی نظروں میں کھب جاتیں ان کو ترقی دے کر مرکزی اور حمیدی عہدوں پر تعینات کردیا جاتا۔
بادشاہ کی تفریح کا دوسرا مشغلہ شکار تھا۔ جس کا انتظام اس طور سے کیا گیا تھا کہ شہر سے متصل کئی میل کے رقبے میں ایک شکار گاہ بنوائی گئی تھی جس میں قسم قسم کی جھاڑیاں اور پودے اگائے گئے تھے۔ ایک حصے میں پرندے، دوسرے میں چوپائے، مثلاً ہرن، بارہ سنگھا، نیل گائے اور سانبھر چھوڑدیے گئے تھے۔ ایک بہت چست و چالاک کنیز میر شکار تھی جس کا نشانہ کبھی خطا نہ ہوتا تھا۔ شکاری خواتین کا ایک عملہ بھی تھا جو بادشاہ کے اس مشغلہ میں اس کے ساتھ رہتا، خود بھی تیروتفنگ اور تلوار و نیزے سے جانوروں کو ہلاک کرتیں اور ملک معظم کو تیر پھینکنے میں مدد دیتیں تھیں بلکہ بعض اوقات جب اس کا نشانہ مسلسل خطا ہوتا تو اپنے شکار کیے ہوئے جانوروں کو بھی اسی سے منسوب کردیتی تھیں۔
عید کے موقع پر مینا بازار کا انعقاد بھی ایک تاریخی حیثیت رکھتا تھا۔ شاہی باغ کا ایک گوشہ اس تقریب کے لیے مخصوص تھا۔ سبزہ کے ایک وسیع خطے پر چاروں طرف دوکانیں تعمیر کی گئی تھیں جن میں ہر جنس کا ایک الگ بازار تھا جسے رنگ برنگ جھنڈوں، گجروں، جھاڑ فانوس اور قندیلوں سے مزین کیا جاتا تھا۔ دکاندار سب عورتیں ہوتی تھیں، جن میں سب سے زیادہ خوبصورت، تیز و طرار کشمیری اور ایرانی تھوک اور خوردہ فروش مستورات سمجھی جاتی تھیں۔ ان کا لہجہ، طرزِ گفتگو اور گاہکوں کو لبھانے کا طریقہ خود بخود اعلیٰ طبقے کی خواتین کو خریداری کی طرف مائل کرلیتا تھا اور گویہ بازار عموماً تین دن اور بعض اوقات ایک ہفتہ تک جاری رہتامگر ان کی دکانیں پہلے ہی روز خالی ہوجاتی تھیں۔ ایک روز بادشاہ بھی گشت لگاتا تھا لیکن اس کی توجہ سامان سے زیادہ بیچنے والیوں کے حسن و جمال، نازو کرشمہ، لہجہ اور گفتگو پر مرکوز رہتی تھی اور ان ہی کو وہ خریدنے کی کوشش کرتا تھا۔ قیمت میں کبھی اعلیٰ عہدے، کبھی نفیس محل اور کبھی زروجواہر پیش کیے جاتے تھے اور اس طرح بہت سے غیر زیرک طائر زیرِ دام آجاتے تھے۔ شہر کی آبادی ابتدا میں بمشکل دس ہزار تھی لیکن آخر میں بڑھتے بڑھتے پندرہ ہزار سے بھی متجاوز ہوگئی۔
اس بادشاہ کی شراب نوشی اور بادہ خواری کے افسانے بھی زبان زد خلائق تھے۔ ان میں سب سے زیادہ مشہور یہ روایت تھی کہ ایک روز سرمستی کی ترنگ میں اسے حوض میں غوطہ لگانے کی سوجھی۔ خواصوں نے منع بھی کیا مگر وہ نہ مانا اور کپڑوں سمیت گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ دوچار ہی ڈبکیوں میں سیروں پانی ناک اور حلق کے راستے اندر چلا گیا۔ نکالنے کی کوشش کی گئی تو ہاتھ پاؤں اس طرح چلائے کہ کسی کو قریب جانے کی ہمت نہ ہوئی۔ آخر جب جسم بالکل ہی بے جان ہوگیا تو کنیزوں نے سر کے بال پکڑ کر باہر کھینچا اور مناسب تدابیر اختیار کیں۔ چند گھنٹے کے بعد جب ہوش و حواس ٹھکانے ہوئے اور کل واقعہ گوش گزار کیا گیا تو جن وفاداروں نے اس کی جان بچائی تھی انہیں انعام و انعام سے سرفراز فرمایا لیکن پھر اس قصور میں کہ بال پکڑ کر کھینچنے سے اس کی اہانت اور ذلت ہوئی ان سب کو قتل کرادیا۔
دوسری مرتبہ جب ایسا ہی واقعہ پیش آیا تو کسی کو بھی اسے باہر نکالنے کی جرأت نہ ہوئی۔ سب ایک دوسرے کا منہ تکتے رہے اور بادشاہ سلامت حوض میں غوطے کھاتے رہے حتیٰ کہ بالکل ہی تہ نشین ہوگئے۔ داروغہ شہر نے اپنے تیراکوں کو حکم دیا کہ پانی میں اتریں اور آقا کو باہر نکالیں لیکن پہلے تجربے نے جو سبق انہیں سکھایا تھا، اس سے پورا استفادہ کرتے ہوئے انھوں نے سرگرمی تو بہت دکھائی، پریشانی کا اظہار بھی بے حد کیا، خواہ مخواہ کی تلاش بھی جاری رکھی لیکن دانستہ اتنی دیر لگائی کہ بادشاہ کی روح قفسِ عنصری سے پرواز کرگئی۔
شاہ ناصرالدین کی موت ایک فردِ واحد کی موت نہ تھی بلکہ اس نظام کی موت تھی جو اس نے عورتوں کا شہر بسا کر قائم کیا تھا۔ بادشاہ کی آنکھیں بند ہوتے ہی سارا کارخانہ درہم برہم ہوگیا۔باغات میں خاک اڑنے لگی اور ایک سال بھی نہ گزرا تھا کہ یہ جیتا جاگتا شہر داستانِ پارینہ بن گیا۔
ہندوستان کی تاریخ کس نے نہیں پڑھی، لیکن آپ کہیں گے یہ واقعہ ہماری نظر سے تو کبھی نہیں گزرا۔ آپ کی شکایت بجا ہے، لیکن اتنا تو سوچئے کہ یہ واقعہ ہماری قومی داستان کا ایک تاریک پہلو ہے اس لیے مورخین نے اس کو عوام سے اسی طرح پوشیدہ رکھنے کی کوشش کی جس طرح ہم اپنے سنگین جرائم اور مذموم گناہوں کو دوسروں پر ظاہر ہونے نہیں دیتے۔ مقامی لوگوں کو تو اس شہر اور اس کے بدنام بانی کے حالات کا بخوبی علم تھا لیکن یہ راز اس وقت طشت از بام ہوا جب شیرشاہ سوری جو اپنے ملک کے چپہ چپہ سے واقف اور حالات سے باخبر رہنا چاہتا تھا، سفر کرتے کرتے مالوے کے شہر مانڈہ پہنچ گیا۔ عوام کا قاعدہ ہے کہ بادشاہ کا قرب حاصل کرنے کے لیے خواہ مخواہ طویل گفتگو کرنے لگتے ہیں اور پھر جب خود وہ بھی ان سے ہر قسم کی افواہ اور داستانیںسننے پر آمادہ ہو تو کیا کچھ نہیں کہا جاتا۔ شہر کے مقدم نے علاقے کی تاریخ سناتے سناتے اس عجیب و غریب شہر کی داستان بھی بیان کرڈالی بلکہ اس کے بانی کی قبر پر بھی لاکھڑا کیا۔ شیر شاہ حالات سنتا اور غصہ سے پیچ و تاب کھاتا رہا۔ قبر دیکھ کر ضبط نہ کرسکا اور اپنے ہمراہیوں کو حکم دیا کہ مزار کی ڈنڈوں سے خبر لیں اور آئندہ کوئی ادھر کا رخ نہ کرے۔
چنانچہ کسی کو اس طرف جانے کی ہمت نہ ہوئی لیکن صاحب مزار کی بدبختی ملاحظہ ہو کہ وفات کے ٹھیک ایک سو دس برس بعد یعنی 1616ء میں دکن جاتے ہوئے شہنشاہ جہانگیر کے دل میں بھی مانڈہ کا قلعہ دیکھنے کی تمنا بیدار ہوئی۔ اہالی موالی نے دبی زبان سے اس کو منع بھی کیا لیکن مشہور ہے کہ بادشاہ نے کسی کی نہ سنی اور قلعہ تک پہنچ گیا۔ پھر واقف کار لوگوں کو جمع کرکے مقامی حالات معلوم کرنے شروع کردیے۔ پہلے تو انھوںنے راجہ بکرماجیت کی داستانیں سنائیں، پھر جے سنگھ کی حکومت کے زمانے میں پارس پتھر کی دریافت کا واقعہ گوش گزار کیا اور آخر کار وہ کلنک کا ٹیکہ بھی دکھا دیا جس کی وجہ سے یہ قدیم شہر بدنام ہوگیا تھا۔
اگلےروز جب جہانگیر سیر کو نکلا تو خلجی بادشاہوں کے مقبروں کو دیکھتے دیکھتے ناصر الدین کے اس مزار پر بھی پہنچ گیا، جس کی شیر شاہ سوری نے ڈنڈوں سے خبر لی تھی۔ جہانگیر نے جوتے سے قبر کی مرمت کی اور درباریوں نے ٹھوکروں اورلاتوں سے چشمِ زدن میں اسے پامال کردیا۔ لعنت و نفرت کی آوازوں سے پورا قبرستان گونج اٹھا۔ اس سے شہنشاہ کے غیظ و غضب میں مزید اضافہ ہوا اور اس نے حکم دیا کے قبر کھود کر اس ناہنجار کی لاش آگ میں جھونک دی جائے۔ ایک درباری نے بادشاہ کو اس فعلِ قبیح سے باز رکھنے کے لیے دست بستہ عرض کی کہ جب کسی کی لاش کو اس دنیا میں ہی جھلسا دیا جائے تو قیامت کے روز اس کے عذاب میں تخفیف ہوجاتی ہے۔ خدا معلوم یہ منطق اسے کہاں سے سوجھی لیکن نتیجے میں بادشاہ نے اپنی رائے بدل دی اور لاش کو دریا میں بہا دینے پر اکتفا کیا گیا۔
میں نے جب ’تزکِ جہانگیری‘ میں اس بادشاہ کا حال پڑھا تو فطرتاً دل میں اس شہر کے متعلق بیان کردہ حالات معلوم کرنے کی خواہش پیدا ہوئی اور میں بھوپال کے مہتممِ تاریخ محمد امین زبیری کے ہمراہ مانڈہ پہنچ گیا۔ یہ وہی مقام ہے جہاں کی وسیع و عریض روٹیاں مانڈے کہلاتی ہیں اور حلوہ مانڈے کی تمثیل میں ضرب المثل کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔
ناصرالدین خلجی کا قصور کچھ بھی رہا ہو جس کی اسے مرنے کے بعد دو دفعہ سخت سزا ملی مگر اس میں شک نہیں کہ اس نے اپنے ذہنِ رسا سے ایک ایسے معاشرے کا اختراع کیا جس کی مثال کہیں اور نہیں ملتی۔
(مرسلہ: ڈاکٹر اقبال احمد ریاض، وانمباڑی، اردو ڈائجسٹ سے ماخوذ)
ll