عورت اور معاشی جدوجہد (اسلام کا نقطۂ نظر)

ڈاکٹر تمنا مبین اعظمی

دور حاضر میں اسلام کے احکامات سے متعلق بہت سے شبہات اور اعتراضات پائے جاتے ہیںجن میں سے ایک یہ بھی ہے کہ مذہب اسلام عورت کو گھر کی چہار دیواری میں قید کر کے اس پر بیرونی دنیا کے حالات سے با خبر ہونے، اپنی صلاحیتوں کے استعمال اور معاشی تگ و دو کرنے پر قدغن لگاتا ہے اور اسے مردوں کا محتاج بناتا ہے۔ جب کہ عورت کی حمایت کرنے والی تنظیموں اور اداروں کا یہ د عوی ہے کہ عورت کو وہ سارے حقوق دیے جائیں جو مردوں کو حاصل ہیں اور عورت وہ سارے کام کر سکتی ہے جو ایک مرد کر سکتا ہے۔ ایسے حالات میں یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ اسلام عورت کی معاشی جدوجہد کو کس نظر سے دیکھتا ہے ۔

اسلام کی اصولی رائے

اسلام کا بنیادی تصور یہ ہے کہ مرد و عورت کو تقسیم کار کے ساتھ زندگی گزارنی چاہیے۔ نان نفقے کی مکمل ذمہ داری اور باہر کی تگ و دو مردوں کی ذمہ داری ہے۔ جب کہ عورت پوری طرح سے معاشی ذمہ داریوں سے آزاد ہے۔ اس کی سرگرمیوں کا مرکز گھر ہے۔ یہ وہ فطری اور متوازن نظام ہے جو مرد و عورت دونوں کے لئے راحت اور سکون کا باعث ہے۔لیکن اسلام کی اس تقسیم کار کا مطلب ہرگز یہ نہیں ہے کہ عورتوں کو کسب معاش کے لئے گھر سے باہر نکلنے کو مطلقاً ناجائز قرار دیا گیا ہو۔ بلکہ قرآن و حدیث، عہد نبوی کے واقعات سے یہ ثابت شدہ امر ہے کہ عورت معاشی جدوجہد کا حصہ تھی اور ہوسکتی ہے اور دین اس پر مطلقاً پابندی نہیں لگاتا۔

اسلام عورت کو تمام سماجی، سیاسی، معاشرتی ،عائلی، تعلیمی اور معاشی حقوق عطا کرتا ہے لیکن وہ مرد و عورت پر الگ الگ ذمہ داریاں بھی عائد کرتا ہے اور اس میں دونوں کی فطری صلاحیتوں اور قوتوں کو مدنظر رکھتا ہے۔ عورت کو جو صلاحیتیں عطا کی گئی ہیں وہ گھر کی ذمہ داریاں سنبھالنے اور بچوں کی نگہد اشت کرنے کے لئے زیادہ موزوں ہیں، جبکہ مرد کو مضبوط اور قوی بنایا تاکہ وہ بیرونی مسائل سے نبر دآزما ہو سکیں اور اپنے اہل و عیال کے لئے معاشی جدوجہد کر سکیں۔ چنانچہ اندرون خانہ کی ذمہ داریاں عورت کے فرائض میں اور بیرون خانہ کی ذمہ داریاں مرد کے فرائض میں شامل ہیں۔ اور دونوں اپنے فرائض کے سلسلے میں خدا کے سامنے جوابدہ ہوں گے۔ جیسا کہ حدیث نبویؐ ہے:

’’۔۔۔۔ اور مرد اپنے گھر والوں کا نگہبان ہے اور ان سے متعلق جوابدہ ہوگا‘‘ ۔

’’۔۔۔ اور عورت اپنے شوہر کے گھر والوں پر نگہبان ہے اور ان سے متعلق جوابدہ ہے‘‘ ۔

اسلام عورت کو وہ تمام آزادی اور حقوق عطا کرتا ہے جو انسان کو بہ حیثیت انسان عزت و تکریم سے جینے کے لئے ضروری ہوتے ہیں۔ اسلام کا بنیادی نظر یہ ہے کہ مرد و عورت کی بنیاد ایک ہے ۔دونوں ایک ہی نفس سے تعلق رکھتے ہیں جیسا کہ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

’’اے لوگو: اپنے پروردگار سے ڈرو جس نے تم سب کو ایک ہی جان سے پیدا کیا اور اس سے اس کا جوڑا پیدا کیا اور ان دونوں سے بکثرت مرد اور عورت پھیلا دیے۔‘‘ (سورہ النساء: ۱ )

عمل صالح کرنے، امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کی ذمہ داری اور اپنے اعمال کی جوابدہی کے لئے دونوں برابر ہیں۔ قرآن کہتا ہے:

’’اور جو کوئی نیکیوں پر عمل کرے گا خواہ مرد ہو یا عورت اور صاحب ایمان ہو تو ایسے لوگ جنت میں داخل ہوں گے اور ان پر ذرہ برابر بھی ظلم نہ ہوگا۔ (النساء: ۱۲۴)

اسلام عورت کو ایک مستقل با لذات شخصیت سمجھتا ہے۔ اس کا اپنا وجود ہے، اپنی خواہشات ہیں اور اپنے اختیارات ہیں۔ وہ کسی کی ملکیت نہیں ہے، اور نہ ہی اس کا وجود مرد کے وجود کا ضمیمہ ہے۔ اس کی الگ ایک انفرادی شخصیت ہے۔ اسی طرح اسلام کے مطابق مرد و عورت دو مخالف جنس ہونے کے باوجود ایک دوسرے کے مخالف فریق نہیں بلکہ ایک دوسرے کا سہارا اور باہم معاون و دوست ہیں۔

اقتصادی اور معاشی آزادی

اسلام عورت پر کسی بھی طرح کی معاشی ذمہ داری عائد نہیں کرتا ہے بلکہ اس کی تمام تر ضروریات کی تکمیل کے لئے شادی سے پہلے باپ یا ولی اور شادی کے بعد شوہر کو مکلف بناتا ہے۔ مگر اس کے ساتھ ہی عورتوں کو اسلامی حدود میں رہتے ہوئے کوئی بھی جائز ذریعہ معاش کو اپنانے کی اجازت دیتا ہے۔ مسلم عورت تجارت کرسکتی ہے، صنعت و حرفت سے وابستہ ہوسکتی ہے، محنت مزدوری کرسکتی ہے، کسی قابل احترام پیشے سے منسلک ہوسکتی ہے۔ اس کے لئے یہ ضروری نہیں کہ اسے پیسے کمانے کی ضرورت ہی ہو۔ اگر ضرورت نہ بھی ہو اور عورت صلاحیت رکھتی ہو اور گھریلو ذمہ داریوں سے آزاد ہو تو وہ شوقیہ بھی کوئی ذریعۂ معاش اختیار کرسکتی ہے۔ عہد نبوی اور خلفائے راشدین کے عہد کے واقعات و حالات سے ہمیں اس کے بارے میں تفصیلات ملتی ہیں۔ البتہ گھر سے باہر نکلنے اور کام کرنے کے لئے کچھ حدود شریعت اسلامی نے مقرر کیے ہیں جن کا لحاظ رکھنا ضروری ہے۔

ملکیت کا حق

اسلامی قوانین نے عورت کو ذاتی ملکیت کا حق دیا۔ اسے مہر، وراثت یا اپنی ملازمت سے ملنے والے امائونٹ پر پورے مالکانہ حقوق حاصل ہوں گے۔ وہ جیسے چاہے اسے خرچ کرے۔ وہ اسے کسی بزنس یا خرید و فروخت میں لگائے یا راہ خدا میں خرچ کرے اسے اس کا مکمل اختیار ہے۔ اور اس کو شرعاً کوئی سلب نہیں کرسکتا ہے۔ اور نہ ہی اس کی ملکیت پر قبضہ جما سکتا ہے۔ قرآن خود صراحتاً عورت کو مہر اور وراثت میں حق دلواتا ہے، جس سے معلوم ہوتا ہے کہ عورت کو اپنے پاس مال رکھنے اور استعمال کرنے کی اجازت ہے اور کوئی اس کا مال ہڑپ نہیں کرسکتا ہے۔ قرآن کہتا ہے:

’’مردوں کے لئے اس میں حصہ ہے جو انھوں نے کمایا اور عورتوں کے لئے اس میں حصہ ہے جو انھوں نے کمایا۔‘‘ (سورہ النساء: ۳۲)

معاشی جدوجہد کرنے کی آزادی

انسانی زندگی میں مال کو بہت اہمیت حاصل ہے۔ اپنی ضروریات کی تکمیل انسان مال کے ہی ذریعے کرتا ہے۔ اس لئے کسب معاش کے ذرائع اختیار کرنا اور کمانے کے لئے جدوجہد کرنا خدا کے نزدیک پسندیدہ عمل ہے۔ اور حلال کمائی کی تاکید کی گئی ہے۔

سورہ مریم میں اللہ تعالیٰ نے حضرت مریم کو رزق حاصل کرنے کا حکم ان الفاظ میں دیا:

’’کھجور کی ٹہنی کو اپنی طرف کرکے ہلائو، پکی ہوئی تر و تازہ کھجور ٹوٹ کر تمہاری طرف گرے گی پھر کھائو پیو اور اپنی آنکھ ٹھنڈی کرو۔‘‘ (سورہ مریم:۲۵)

علامہ قرطبی الجامع لاحکام القرآن میں اس آیت کے تحت لکھتے ہیں:’’بندوں کو رزق کا مکلف بنانا اللہ تعالیٰ کی سنت ہے اور یہ توکل کے خلاف نہیں ہے۔‘‘

قرآن مجید میں حضرت شعیبؓ کی دو صاحب زادیوں کی حضرت موسیٰ سے ملاقات کا تذکرہ ان الفاظ میں آیا ہے:

’’اور مدین کے پانی پر جب آپ پہنچے تو دیکھا کہ لوگوں کی ایک جماعت وہاں پانی پلا رہی ہے اور دو عورتوں کو الگ کھڑی اپنے جانوروں کو روکتی ہوئی دیکھا، پوچھا کہ تمہارا کیا حال ہے، وہ بولیں کہ جب تک یہ چرواہے واپس نہ لوٹ جائیں ہم پانی نہیں پلاتے اور ہمارے والد بہت بڑی عمر کے بوڑھے ہیں۔‘‘ ( القصص: ۲۳)

اس آیت کا ٹکڑا کہ ’’ہمارے والد بہت بوڑھے ہیں‘‘ اس بات کو واضح کرتا ہے کہ حضرت شعیبؓ کی صاحبزادیاں ضرورتاً گھر سے پانی لینے اور جانوروں کو پلانے کے لئے جایا کرتی تھیں کیونکہ ان کے والد ایسا کرنے سے قاصر تھے۔ ساتھ ہی یہ بھی بتاتا ہے کہ ان کی صاحب زادیاں معاشی جدوجہد کا حصہ تھیں۔

اس لیے یہ بات بھی ظاہر ہوتی ہے کہ عورت کی شرافت کا تقاضا ہے کہ وہ مردوں میں گھس کر دھکم پیل نہ کرے بلکہ باوقار انداز اختیار کرے۔ کیونکہ یہ دونوں اس وقت تک پانی نہیں پلاتی تھیں جب تک کہ چرواہے چلے نہ جاتے۔

عہد نبوی میں معاشی جدوجہد

عہد نبوی میں کسب معاش کی تگ و دو کی سب سے بڑی اور نمایاں مثال حضرت خدیجہؓ عنہا ہیں جو کہ ایک بہت بڑی تاجر تھیں۔ اسلام کی اولین empower یا بااختیار خواتین میں حضرت خدیجۃ الکبریٰ ؓ کو سرفہرست رکھا جاسکتا ہے۔وہ ایک صاحب ثروت اور تاجر خاتون تھیں۔ وہ اپنا مال دوسرے ممالک میں بھیجتی اور وہاں کا مال منگواتیں۔ گویا موجودہ دور کے مطابق ان کا ایکسپورٹ، امپورٹ جیسا بزنس تھا۔ اپنے تجارتی لین دین میں ہی انہوں نے نبی کریمؐ کی خوبیوں کو پرکھا اور نکاح کا پیغام دیا۔ شادی کے بعد بھی وہ آزادی سے اپنے معاملات انجام دیتی رہیں اور وہ نبی کریمؐ کی سب سے بڑی طاقت بن گئیں اور ان کی تمام دولت رسول اکرمؐ کے کام آتی رہی۔ جس سال وفات ہوئی اسے آپؐ نے عام الحزن (غم کے سال) کا نام دیا۔

حضرت خدیجہؓ کی ایک بہن حضرت ہالہؓ چمڑے کی کھال کی تجارت مکی عہد میں کرتی تھیں۔ رسول اکرمؐ نے حضرت خدیجہؓ سے شادی کے سلسلہ میں ان سے اپنے ایک ساتھی اور ہم عمر حضرت عبداللہ بن حارث ہاشمی کے ساتھ بازار یا ان کے مقام تجارت پر ملاقات کی تھی۔

مشہور سردار مکہ ابوجہل مخزومی کی ماں اسماء بنت مخرمہ ثقفی دونوں دور جاہلیت اور عہد اسلامی میں عطر فروشی کرتی تھیں۔ ان کے ایک فرزند حضرت عبداللہ بن ابی ربیعہؓ یمن سے عمدہ عطر ان کے پاس بھیجا کرتے تھے جسے وہ فروخت کرتیں۔

حضرت حولاءؓ ایسی عطر فروش تھیں کہ وہ ’’العطارۃ‘‘ کے نام سے ہی مشہور ہوگئی تھیں وہ رسول اللہؐ کے خانہ مبارک بھی آتی تھیں اور عطر فروخت کرتی تھیں اور رسول اکرمؐ ان کے عطروں کی خوشبوئوں سے ان کو پہچان لیا کرتے تھے۔

حضرت ملیکہؓ جو مشہور صحابی حضرت سائب بن اقرع ثقفی کی ماں تھیں، عطر فروشی کا کام کرتی تھیں۔ ان کے فرزند حضرت سائب ثقفیؓ کا بیان ہے کہ ایک بار میری ماں ملیکہؓ رسول اکرمؐ کی خدمت میں عطرفروشی کے ارادے سے پہنچیں۔ رسول اکرمؐ نے بعد ازخرید ان سے ان کی حاجت و ضرورت کے بارے میں پوچھا۔ انھوں نے عرض کیا کہ حاجت تو کوئی نہیں لیکن میرے چھوٹے بچے کے لئے، جو ان کے ساتھ تھا، دعا فرما دیں۔ رسول اکرمؐ نے ان کے سر پر ہاتھ پھیرا اور دعا دی۔

حضرت قیلہ انماریہؓ کی تجارت اور خرید و فروخت کا ذکر ملتا ہے۔انھوں نے نبی کریمؐ سے اپنے بھائو تائو اور مول تول کرنے کے بارے میں بتایا تو رسول اقدسؐ نے مول تول کرنے سے منع فرمایا۔

کاشتکاری

حضورؐ کے عہد میں خواتین کھیتی باڑی کا کام بھی کرتی تھیں۔ حدیث میں آتا ہے:

’’سہل بن سعدؓ ایک خاتون کا ذکر کرتے ہیں جو اپنی کھیتی میں پانی کی نالیوں کے اطراف چقندر کاشت کیا کرتی۔۔۔ اور جمعہ کے دن سہلؓ اور دیگر صحابہ کو چقندر اور آٹے سے تیار کردہ حلوا کھلاتی تھیں۔‘‘

حضرت اسماء بنت ابوبکرؓ گھر کا کام کاج بھی کرتی تھیں اور اپنے کھیتوں سے گھوڑے کا چارا اور کھجور کی گٹھلیاں سر پر اٹھا کر لایا کرتی تھیں جیسا کہ حدیث سے واضح ہوتا ہے۔ وہ اپنا حال بیان کرتے ہوئے کہتی ہیں:

’’میرا بیاہ حضرت زبیرؓ سے ہو چکا تھا، لیکن ان کے پاس ایک پانی لادنے والے اونٹ اور گھوڑے کے سوا نہ کسی قسم کا کوئی مال تھا، نہ خادم اور نہ کوئی دوسری چیز، میں خود ہی ان کے گھوڑے کو چارہ دیتی، پانی پلاتی اور ان کا ڈول بھرتی۔ گھر کا کام کاج بھی خود کرتی، خود ہی آٹا گوندھتی اور روٹی پکاتی، روٹی اچھی نہ پکا سکتی تھی، پڑوس میں انصار کی کچھ عورتیں تھیں، جو اپنی دوستی میں بڑی مخلص ثابت ہوئیں، وہ میری روٹی پکا دیا کرتی تھیں، رسول اللہؐ نے حضرت زبیرؓ کو میرے مکان سے دو میل کے فاصلے پر ایک زمین کاشت کرنے اور فائدہ اٹھانے کے لئے دے رکھی تھی۔ میں اس زمین سے کھجور کی گٹھلیاں لایا کرتی تھی۔‘‘

حضرت جابرؓ کی خالہ مطلّقہ ہوگئیں اور وہ دوران مدّت اپنے کھجور کو توڑنے کے لئے نکلیں، ایک صحابی نے انہیں اس سے روکا تو وہ رسول اللہؐ کے پاس آئیں، اور آپؐ سے مسئلہ دریافت کیا، تو آپؐ نے فرمایا:

’’نکلو اور اپنے کھجور کو توڑو، امید کہ تم اس سے صدقہ یا خیر کا کام کر پائوگی۔‘‘

صنعت و حرفت:

ام المومنین حضرت زینب بنت حجش ایک دستکار خاتون تھیں۔ وہ چمڑے کی دباغت کے فن کو جانتی تھیں۔ وہ طرح طرح کی چیزیں تیار کر لیتیں اور انہیں فروخت کر دیتی تھیں۔ اس پیسے کو وہ اللہ کی راہ میں خیرات کر دیا کرتی تھیں۔

حضرت زینب ثفقیؓ جو حضرت عبداللہ بن مسعودؓ کی زوجہ تھیں اور زینب انصاریہؓ جو ابو مسعود انصاریؓ کی بیوی تھیں، ان دونوں کے شوہر نفقہ دینے سے عاجز تھے اور یہ دونوں خواتین اپنے ہاتھ کی کاریگری اور دستکاری سے چیزیں بنا کر فروخت کرتی تھیں اور اپنے شوہر اور دوسرے زیر کفالت لوگوں کا نفقہ اٹھاتی تھیں، اللہ کے رسولؐ نے ان کے نفقہ کو دہرے اجر کا باعث بتایا۔ ایک تو صدقے کا اجر اور دوسرے قرابت کا اجر۔

رضاعت

دور نبوی میں اور اس سے پہلے بھی ایک خالص نسوانی پیشہ رضاعت کا بھی تھا۔ زمانہ قدیم سے عرب سماج میں پیشہ ور مرضعات کا ایک طبقہ موجود رہتا تھا۔ حلیمہ سعدیہ ایک مشہور ترین مرضعہ ہیں جو نبی اکرمؐ کی رضاعی ماں تھیں۔ حضرت ثوبیہؓ بھی باقاعدہ مرضعہ تھیں جو مکہ مکرمہ میں یہ خدمت انجام دیا کرتی تھیں۔ حضرت ام بردہؓ رسول اکرمؐ کے بیٹے ابراہیمؓ کی رضاعی ماں تھیں۔ ان کے علاوہ بھی بہت سی خواتین پیشہ رضاعت سے وابستہ تھیں۔

ان پیشوں کے علاوہ بھی مسلم سماج میں بعض دوسرے پیشے بھی تھے۔ جو عورتوں سے متعلق تھے۔ اس لئے اس سے عورتیں وابستہ ہوا کرتی تھیں۔ جیسے قابلہ (دائیوں کا طبقہ)۔ ختّانہ ( عورتوں کا ختنہ کرنے والی) حاضنہ (کمسن بچے بچیوں کی دیکھ بھال اور پرورش کے لئے ایک خاص طبقہ)۔

سرکاری نوکری

’’ بازار کے افسر کی حیثیت سے خلیفۂ وقتنے ایک خاتون کا تقرر کر کے ایک بہت اہم اور دور رس نتائج کے حامل اقدام کی بنیاد رکھی تھی۔ یہ کافی حیرت انگیز بات ہے کہ بازار کے خالص مردانہ تجارتی کا روبار کی دیکھ بھال اور انتظام و انصرام کے لئے انھوں نے ایک خاتون کا تقرر کیا تھا وہ تھیں حضرت شفاء جو مدینہ کے ایک بازار کی افسر تھیں۔‘‘

عہد نبوی میں خواتین کا مختلف پیشوں سے وابستہ ہونا اس بات کو ثابت کرتا ہے کہ عورتو ںکے لئے معاشی جدوجہد ممنوع نہیں ہے۔ اور نہ صرف بوقت ضرورت ہی جائز ہے بلکہ اگر عورت فرصت نکال کر شوقیہ بھی اسلامی حدود کے اندر رہتے ہوئے معاشی تگ و دو کرتی ہے تو اس کی اجازت ہے۔ دور حاضر میں نت نئی مشینوں کی ایجاد نے زندگی اور کاموں کو بہت آسان کر دیا ہے۔ پہلے عورتوں کو پکانے ، کوٹنے، پیسنے، دھلائی، کٹائی ،سلائی، شوہر اور بچوں کی دیکھ بھال سے ہی فرصت نہیں مل پاتی تھی اور ان سب کاموں میں زیادہ تر وقت صرف ہو جاتا تھا۔ لیکن آج یہ سارے کام بہت ہی کم وقت میں بنا زیادہ تھکن کے انجام پا جاتے ہیں۔ بچوں کو بھی چھوٹی عمر سے ہی کنڈر گارٹن یا پلے اسکول میں ڈال دیا جاتا ہے جس سے عورتوں کو فرصت کے بہت سے لمحات میسر ہو جاتے ہیں۔ ان اوقات کو عورت مطالعہ یا کسی قسم کی معاشی تگ و دو میں صرف کر سکتی ہے۔ اس طرح سے اپنے آپ کو مصروف رکھ کر وہ خود کو بہت سی فضو لیات سے بھی بچا سکتی ہے اور معاش کے علاوہ رفاہ عامہ اور دعوت دین کے کام بھی انجام دے سکتی ہے۔ لیکن عورت معاشی جدوجہد میں شرکت ہی کرنا چاہتی ہے تو اس کے لئے معاشی جدوجہد کرنے کے کچھ حدود ہیں جس کی اسے ہر حال میں پیروی کرنی ہوگی۔

۱۔ ولی سے اجازت۔ مرد خاندان کا ذمہ دار اور قوام ہوتا ہے۔ بیوی کے اخراجات کی شرعی اور قانونی ذمہ داری شوہر پر ہوتی ہے اور بیٹی کے اخراجات باپ کی ذمہ داری ہیں۔ چنانچہ کسی بھی پیشے سے وابستہ ہونے سے پہلے ان کی اجازت لینا ضروری ہے یہ ایک معاشرتی مسئلہ ہے اور اس کا مقصد گھر کے انتظام کو بہتر انداز سے چلانا ہے۔ جیسا کہ رسول اللہؐ نے فرمایا:

’’مرد اپنے گھر والوں پر ذمہ دار اور ان کے بارے میں جواب دہ ہے۔‘‘

۲۔ شادی شدہ عورت کی پہلی اور اولین ذمہ داری اپنا گھر، شوہر اور بچوں کی صحیح نگہداشت اور دیکھ بھال ہے۔ اور عام زندگی میں ترجیحات کی بڑی اہمیت ہے۔ ملازمت کی وجہ سے یہ ذمہ داری متاثر نہ ہو۔ یہ انسان کی اپنی دانش مندی سے متعلق ہے۔ موجودہ زمانے میں بھی بہت سی ہائی کوالیفائڈ اور اعلیٰ عہدوں پر فائز خواتین بچوں کی تعلیم و تربیت اور نگرانی کی ضرورت کے پیش نظر یا تو طویل چھٹیاں لیے لیتی ہیں یا نوکری ترک کردیتی ہیں۔

۳۔ حجاب اور پردے کا جو عام اصول ہے اس پر عمل کیا جائے۔

۴۔ مردوں سے بیجا اختلاط اور تنہائی میں ملنے سے پرہیز کیا جائے۔

۵۔ ملازمت کی غرض سے دور کسی اور شہر یا کسی دوسرے ملک میں غیرمحفوظ سفر کرنا یا غیر محفوظ قیام کرنا عقل و شریعت دونوں کے خلاف ہے۔

کسی ایسے ادارے میں کام کرنا جہاں مردوں کو پرکشش بن کر دکھانا، لبھانا، لوچ دار آواز میں بات کرنا ضروری ہوتا ہو مثلا سیلز گرل، Receptionist، ایئر ہوسٹس وغیرہ ایسی ملازمت کرنا حقیقت سے نسوانیت کے وقار کے خلاف ہے اس لیے اسلام بھی اسے پسند نہیں کرتا۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں