عورت پر معاشرتی مظالم

شیخ سمیہ تحریم بنت شیخ امتیاز احمد

اسلام نے عورت کے لیے جہاں سماجی، خاندانی و ازوداجی زندگی میں حقوق متعین کیے ہیں وہیں خاندان میں عورت کے کچھ معاشی حقوق بھی متعین کیے ہیں جن میں عورت کے وراثتی حقوق بھی شامل ہیں۔ شوہر کو بیوی کا قوّام بنایا گیا ہے،اس حیثیت سے مرد پر بیوی کے کھانے، پینے، علاج، رہائش اور زندگی کی تمام معاشی ضرورتوں کی ذمّہ داری ہے اور وہ خدا کے سامنے اسکے لیے جوابدہ ہے۔

ترجمہ: ’’مرد عورتوں پر قوّام ہے اس بناء پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت دی ہے اور اس بناء پر کہ مرد اپنا مال خرچ کرتے ہیں۔(النساء ۴۳)

عورت کے سلسلے میں اسلام کے فلسفہ معاش کو دیکھے تو وہ عورت کی معیشت کو حقوق سے جوڑتا ہے۔باپ کی جائیداد میں حق،شوہر کے مال میں بیوی کا حق،اسطرح سے اسلام عورت کی معیشت کو حقوق کے دائرے میں لا کر استحکام بخشتا ہے اور کسی عورت کو معاشی طور پر بے یار و مددگار نہیں چھوڑتا۔

ترجمہ: {اور عورتوں کے لئے بھی اس مال میں حصّہ ہے جو ماں باپ اور قریبی رشتہ داروں نے چھوڑا ہے خواہ تھوڑا ہو یا بہت اور یہ حصّہ اللہ کی طرف سے مقرر ہے.سورہ النساء۸}

غرض اسلام عورت کے لیے معیشت کو عورت کی کمائی سے نہیں جوڑتا اور نہ اسلام عورت پر معاشی ذمّہ داریوں کا بو جھ ڈالتا ہے لیکن حسبِ ضرورت معاشی جدوجہد کی اجازت ضرور دیتا ہے۔اسلام میں عورت اِس حیثیت سے جوابداہ نہیں بنائی گئی کہ وہ اپنے خاندان کی کفالت کرے بلکہ رسول ﷺ کی حدیث ہے جس میں آپﷺ نے ارشاد فرمایاـ:

” تم میں سے ہر ایک راعی ہے اور اپنی رعیت کے بارے میں جوابدہ ہے عورت اپنے گھر، شوہر اور بچّوں کی راعی ہے۔”

عورت پر اسلام کا یہ احسانِ عظیم اور اللہ کی بہت بڑی نعمت ہے کہ عورت کو معاشی جدوجہد، بازار، آفس، مارکیٹ، روزگار کی سرگرمیوں سے علیحدہ کر کے اُسکی پوری توجہ اپنی نسلوں کی تربیت،گھر گرہستی،خاندانی ضروریات کی تکمیل پر مرکوز کر دی ہے کہ ایک گھر جتنا مضبوط،اخلاقی تہذیب ودینی بنیادوں پر مستحکم ہوگا ویسا ہی سماج تشکیل پائے گا۔

اگر عورت کو صرف گھر کا معیارِ زندگی بلند کرنے کے لئے معاشی جدوجہد میں ڈھکیل دیا جائے تو یہ عورت پر معاشی ظلم ہی شمار ہوگا۔خود یوروپ اور امریکہ کے ماہرین معاشیات economistاب یہ تسلیم کر رہے ہیں کہ گھر سے باہر عورت کی معاشی جدوجہد نے سماج کو broken homeیعنی ٹوٹے ہوئے گھر کا تحفہ دیا ہے۔BROKEN HOMEنامی کتاب میں مغربی ماہرین معاشیات نے لکھاہے کہ :۔”۔آزادی نسواں کے نام پر عورت کو ایسا سبق پڑھا یا گیا کہ عورت گھر کے مظبوط خاندانی حصار سے نکل کر باہر آگئی ہے اور ہماری آئندہ کی نسلیں اُس عورت سے محروم ہو گئی ہیں جو روحانیت و خیر کا پیکر تھیں،گھر کی مدرس اور مرکز تھیں۔۔۔آہ ہماری نسلیں چند روپیوں اور بلند معیار زندگی کی خاطر اُس عورت سے محروم ہو گئی ہیں جسے ماں کہتے ہیں،اک مثالی بیوی کہتے ہیں ۔”

یہ بھی عورت پر ظلم ہے کہ اُسکے معاشی حقوق ادا کرنے کے بجائے اُسے خود معاشی جدوجہد میں ڈھکیل دیا جائے۔عورت کو آزدی نسواںو معاشی طور پر خود مختار بنانے کے نام پرمرد کے زیرِدست معاشی زندگی سے نکال کر خود مختار معاشی زندگی کا نعرہ تو دیا گیا مگر یہ نعرہ بھی عورت کے معاشی استحصال میں تبدیل ہو کر رہ گیا اور خوبصورت نعروں سے شروع اس تحریک نے دُنیا کو ٹوٹتے بکھرتے خاندان عورت کی توجہ سے محروم گھر تحفہ میں دیے ہیں۔

ایک طرف ملک کا کارپوریٹ سیکٹر ،انڈسٹریل سسٹم ہے جو عورت کو کسی قیمت پر اعلیٰ عہدہ پر فائز نہیں کرتا۔فوج،انٹیلی جنس ،تفتیشی اداریکسی عورت کو ذمّہ دارانہ پوسٹ نہیں دیتے۔اسی نظام کا یہ روپ بھی دیکھیے کہ مزدور و بندھوا مزدور کے طور پر انتہائی سستے داموں پر عورت کی خدمات لی جاتی ہیں۔ایک سروے رپورٹ میں یہ بات آئی کہ پرائیوٹ سیکٹر درجہ سوم وچہارم میں اپنی ملازم خواتین کو مرد کے مقابلے نصف تنخواہ دیتے ہے جب اسکا معاملہ کورٹ تک پہنچا تو فیصلہ یہ آیا کہ یہ کمپنی کا ذاتی معاملہ ہے ۔

معاملہ کا دوسرا رخ بھی تو دیکھئے کہ اپنے پروڈکٹ کی تشہیر کرنے والی عورت کو چند گھنٹوں کے لیے لاکھوں روپئے دیتے ہیں۔ ایڈورٹائزنگ کی لاکھوں کروڑوں کی اس چکا چوند میں اُن بے شمار بے بس و بے سہارا عورتوں کے لئے کوئی جگہ ہی نہیں جو کم خو بصورت ہیں یا اس خود نمائی کی دنیا سے دور رہنا چاہتی ہیں۔ انھیں ہر دن ۱۰، ۱۲ گھنٹے کام کر کے صرف چند روپیوں میں گزارہ کرنا پڑتا ہے۔ٹائمز آف انڈیا نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ:جدید کمپنیوں میں ایک خاتون ملازم سے توقع کی جاتی ہے کہ وہ

“look like a women, behave like a lady, think like a man, and work like a dog”

گزشتہ سال خواتین کی فلاح و بہبود کے لئے کام کرنے والی women rights نامی NGO نے ملک بھر کا سروے کیا جس کے مطابق ہندوستان عورتوں کے معاشی استحصال میں ایک عالمی سطح کی منڈی میں تبدیل ہوچکا ہے. رپورٹ کے مطابق ملک میں ایسی بے شمار ایجنسیاں کام کر رہی ہیں جو عورتوں پر معاشی مظالم کی انتہاء پر ہے ں۔

ملک کے قوانین ہوں یا مختلف مذاہب کے اصول، سبھی کسی نہ کسی طرح عورت پر معاشی ظلم کرتے ہیں۔ ہندو دھرم کے مختلف طبقات میں بیوہ عورت کی دوسری شادی نہیں ہو سکتی۔ اس طرح ان طبقات کی بیواہ عورتیں معاشی مجبوریوں کی سبب جسم فروشی کے اڈّوں،شراب خانوں، قمار خانوں و نائٹ کلبوں تک پہنچ جاتی ہیںاور اُس وقت اُسے قانونی تحفظ حاصل کرنے کے لئے ملک کا پلاننگ کمیشن بھی سفارش کرتا ہے۔ ہمارے ملک کے دیگر مذاہب میں عورت کے معاشی حقوق ہی متعین نہیں۔ یہی وجہ ہے کہ مارواڑی،راجپوت وغیرہ طبقات میں جہیز کا چلن عام ہے چونکہ عورت کو وراثت میں کوئی حق نہیں ہے سو جہیز کی شکل میں مال دیا جاتا ہے مگر یہی چیز خود عورت پر معاشی ظلم کا سب سے بڑا ذریعہ بن گئی ہے۔ کہیں جہیز نہ ہونے کی وجہ سے ملک کی لاکھوں لڑکیاں شادی سے محروم ہیں تو کہیں ملک کی کروڑوں لڑکیاں کم جہیز لانے کی وجہ سے تناو کا شکار ہیں۔ یہاں خود حکومت کے اعداد و شمار کے مطابق ہر سال جہیز کے لیے ہزاروں لڑکیوں کو زندہ جلا کر مار دیا جاتا ہے تو ہزاروں لڑکیاں خودکشی کر لیتی ہیںـ…غرض غیر اسلامی و بے دین سماج عورت کے معاشی حقوق متعین کرنے میں ہمیشہ اِفراط و تفریظ کا شکار رہا۔

جبکہ اسلام نے واضح طور پر عورت کے معاشی حقوق متعین کر دئے ہیں۔شریعت نے زندگی کی عملی ذمہ داریوں کو تقسیم کر کے باہر کی ذمّہ داری مرد کے حوالے کی ہے اور گھریلو ذمّہ داری عورت کے سپرد کی ہے۔دونوں کو اُنکے فرائض کے اعتبار سے قوّت و صلاحیت عطاء کی گئی ہے۔

زندگی کی تعمیر اُسی وقت ممکن ہے جب دونوں اپنی اپنی صلاحیتوں و قوتوں کو اپنے اپنے میدان میں پوری یکسوئی و دلچسپی کے ساتھ استعمال کریں۔اس حد کو جب بھی توڑا جائے گا گھر اور باہر دونوں جگہ ہی افراتفری پھیلے گی اور زندگی کا نظام بھی درہم برہم ہو جائے گا اور ایک ایسا معاشرہ وجود میں آئے گاجو محبت سے خالی بچوں کی تربیت سے لاپروا،ممتا سے عاری، خدمت گزار وفا شعار بیوی سے محروم ہوتا ہے، مگر مادّہ پرستی و خودغرضی سے مالا مال ہوتا ہے اور جس کے نتائج تحریر کے محتاج نہیں بس مغربی سماج کا مشاہدہ کر لیں اور افسوس یہ ہے کہ اب نہایت تیزی سے اس نے مشرق میں بھی اپنے پنجے گاڑنے شروع کر دئے ہے…

ایک پُرسکون ، balanced، مثالی معاشرہ کی تکمیل کا حصول صرف اسلام کی تعلیمات میں ہے ضرورت ہے کہ مکمل سنجیدگی کے ساتھ اِن تعلیمات کو تحریروں،تقریروںو کتابوں سے نکال کر عملی زندگی میں نافذ کیا جائے تا کہ دنیا دیکھ لے کہ دراصل آزادی نسواں کیا ہے اور اسلام سے بڑھ کر آزادی نسواں کا علمبردار اور کون ہے۔ اور یہ نہ ہو کہ ہم ہی سب سے پہلے ان تعلیمات کو پیچھے ڈالنے ہوں…

ہے عرصئہ ہستی میں عمل ہی سے تو سب کچھ باتوں سے کوئی کام بنا ہے نہ بنے گا۔۔!lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں