عورت کا کردار بہ حیثیت بیوی

فرحت الفیہ

عورت اپنے ہر کردار میں کائنات کا حسن ہے۔ وہ ایک لطیف ترین وجود اور وفا کے پیکر کی حیثیت سے جانی جاتی ہے۔ عورت سماج میں مختلف کردار ادا کرتی ہے۔ کبھی ماں، کبھی بیٹی، کبھی بہن تو کبھی پرخلوص و غمگسار ہمدرد اور اطاعت شعار شریک حیات۔ ان تمام کرداروں میں بہ حیثیت بیوی اس کا کردار نہایت جامع اور موثر ہے۔

بیوی کا کردار

قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:

’’اس کی نشانیوں میں سے ہے کہ اس نے تمہارے لیے جوڑے پیدا کیے تاکہ تم ان سے سکون پاؤ۔‘‘

متعدد احادیث کی روشنی میں عورت کا کردار بحیثیت بیوی مزید واضح ہوکر سامنے آتا ہے۔ اس کردار کی ادائیگی میں عورت پر بعض اہم حقوق و فرائض عائد ہوتے ہیں، جن کو ادا کر کے ایک عورت اپنے گھر، اپنے سماج اور معاشرے کو جنت نشان بنا کر خود بھی اپنی عاقبت سنوارتی ہے۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سب سے افضل مال ذکر کرنے والی زبان، شکر کرنے والا دل اور صالح بیوی ہے۔

معاذ بن جبلؓ سے روایت ہے کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’عورت اس وقت تک ایمان کی حلاوت نہیں پاسکتی جب تک اپنے شوہر کا حق ادا نہ کرے۔‘‘

ایک اور جگہ نبیؐ نے ارشاد فرمایا:

’’اس ذات کی قسم جس کے قبضے میں میری جان ہے، عورت اس وقت تک رب کا حق ادا نہیں کرسکتی جب تک اپے شوہر کا حق ادا نہ کرے۔‘‘

حصن بن محصن سے روایت ہے کہ ’’ان کی پھوپھی کسی کام سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس حاضر ہوئیں۔ آپؐ نے ان کا نام پوچھنے کے بعد فرمایا:

’’کیا تم شادی شدہ ہو؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: ’’جی ہاں‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ’’تمہارا شوہر کے ساتھ رویہ کیسا ہے؟‘‘ انھوں نے عرض کیا: ’’میں نے ان کی اطاعت اور فرماں برداری میں کوئی کوتاہی نہیں کی سوائے اس چیز کے جو میرے بس میں نہیں۔‘‘ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ’’دیکھ لو تمہارا اس کے نظر میں کیا مقام ہے کیوں کہ وہی تمہاری جنت بھی ہے وہی تمہاری جہنم بھی۔‘‘

عبد اللہ بن سلام سے روایت ہے: ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بہترین بیوی وہ ہے جو تمہیں دیکھے تو خوش کردے، جب تم کسی بات کا حکم دو تو بجا لائے اور تمہاری عدم موجودگی میں تمہارے مال اور اپنی ذات کی حفاظت کرے۔‘‘

گویا اسلام نے مسلم عورت کو بحیثیت بیوی یہ رہ نمائی کی ہے کہ اسے کیا طرز عمل اختیار کرنا چاہیے۔ وہ کون سے عادات و اعمال ہیں جو اسے اپنانا چاہئیں۔ اس رہنمائی پر عمل پیرا ہوکر ایک عورت اپنے گھر کو جنت بنا سکتی ہے۔ اور ان میں موجود نکات کے ذریعے ایک مضبوط معاشرے کی بنیاد رکھ سکتی ہے اور مستحکم معاشرے کی تعمیر کرسکتی ہے۔

رول ماڈل کی تلاش

عورت کو اپنے مختلف کردار کی ادائیگی کیلیے قابل تقلید رول ماڈلز کی تلاش ہوتی ہے۔ اگر مناسب رہنمائی نہ ہو تو وہ مختلف ٹی وی سیریلز میں دکھائی جانے والے یا ناولوں کے فرضی کردار کو اپنا رول ماڈل بنا لیتی ہے۔ نتیجتاً اپنی راہ کھوٹی کر بیٹھتی ہے۔

مسلم خواتین کے لیے امہات المومنین اور صحابیات کی زندگی میں بحیثیت بیوی زبردست رول ماڈل ہیں۔ خصوصاً امہات المومنین کی زندگیاں بحیثیت ایک بیوی کے عورتوں کے لیے زندہ اور ہر مرحلے میں قابل تقلید ہی نہیں بلکہ رشک اور دنیا و آخرت میں اعلیٰ درجے کی کامیابی کی ضامن بھی ہیں۔ جس میں سب سے زیادہ نمایاں کردار حضرت خدیجہؓ کا ہے۔

حضرت خدیجہ رول ماڈل

حضرت خدیجہ کی شخصیت ہر دور کی خواتین کے لیے بحیثیت بیوی ایک مثالی کردار کی حیثیت رکھتی ہے۔ یہ ہی وہ خاتون ہیں جن کو سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت کا شرف حاصل ہوا، اور تمام دنیا کے انسانوں میں سب سے پہلے اسلام لانے کا شرف بھی آپ ہی کو حاصل ہوا۔

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی زوجیت میں آنے سے پہلے ہی حضرت خدیجہؓ طاہرہ کہلاتی تھیں۔ مکہ کی امیر ترین متمدن خاتون، ان کا شمار اشراف زادیوں میں ہوتا تھا۔ آپؐ سے نکاح کے پہلے ہی عفت، حیا، نیک نفسی اور اعلیٰ ظرفی آپؐ کی شخصیت کے نمایاں اوصاف تھے۔ اپنے اوصافِ حمیدہ کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے انہیں صادق و امین کی رفاقت عطا فرمائی۔

سراپا محبت، خیر خواہی، سچی غم خوار، بہترین مشیر، شریک مشن، جاں نثار اور اولاد کی مربی جیسی بے شمار خوبیاں حضرت خدیجہ کی سیرت میں بحیثیت بیوی بہت نمایاں اور قابل تقلید ہیں۔

سراپا محبت

حضرت خدیجہؓ اپنے شوہر کی ایسی عاشق زار تھیں کہ ہمہ وقت آپ کی ضروریات کی تکمیل کے لیے متوجہ رہتیں۔ وہ ایسی شریک سفر تھیں جو جان و مال ہر لمحہ آپؐ پر نچھاور کرتیں۔ ہر لمحہ آپؐ کی مدد اور دل جوئی اور خدمت کے لیے مستعد رہتیں۔ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کئی کئی دن تک غارِ حرا میں جاکر عبادت کرتے تو حضرت خدیجہؓ ڈھونڈ ڈھونڈ کر کھانا پہنچاتی تھیں۔

سچی خیر خواہی

آپ صلی اللہ علیہ وسلم جب نبوت کے شرف سے سرفرار کیے گئے اور جب جبرئیل علیہ السلام کو آپؐ سے پہلی مرتبہ دیکھا اور گھبرا کر اپنے گھر تشریف لائے اور فرمایا: ’’مجھے کچھ اوڑھا دو‘‘ اس وقت حضرت خدیجہؓ نے جس سمجھ داری کا ثبوت دیا اور خوب صورت انداز میں اپنے شوہر عزیز کی ڈھارس بندھائی وہ تاریخ کا ایک سنہرا باب بن گیا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ مجھے جان کا خوف لاحق ہے۔ تو حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ نے وہ تاریخی الفاظ کہے۔ ’’آپ صلی اللہ علیہ وسلم پریشان نہ ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے کبھی کوئی بات غلط نہیں کی، کبھی کسی کا دل نہیں دکھایا، آپؐ یتیموں کے والی اور بیواؤں کے مددگار ہیں۔ مسکینوں کی خدمت کرتے ہیں، کنبہ والوں کے ساتھ مہربانی کرتے ہیں، اہل قریش آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دیانت و امانت کے معترف ہیں۔ آپ کسی قسم کا خوف نہ کریں اللہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو ضائع نہیں کرے گا۔‘‘

آپ صلی اللہ علیہ وسلم بچپن ہی سے یتیم تھے اور بہت کم عمری میں ماں کے شفقت بھرے سایہ سے بھی محروم ہوگئے تھے۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پندرہ سال بڑی تھیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے نکاح کے بعد نہ صرف وفا شعار، غم گسار، خدمت گار، محبت کرنے والی مثالی بیوی کا کردار ہی نہیں نبھایا بلکہ ماں کی سی شفقت بھی آپؐ پر نچھاور کی۔

وہ شعب ابی طالب کے تین سال معاشرتی بائیکاٹ میں ہر لمحہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہیں۔ ناز و نعم میں پلنے اور انتہائی دولت مند ہونے کے باوجود فاقہ کشی پر بھی کبھی زبان پر حرف شکوہ نہ لائیں، سخت ترین حالات میں بھی آپؐ کا ساتھ چھوڑنے کا سوچنا بھی خدیجہ کے لیے سوہان جان تھا۔ یہاں تک کہ اپنے محبوب شوہر کی غم خواری کی حالت میں ہی مالک حقیقی سے جاملیں۔

شریک مشن

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ سب سے پہلے آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر ایمان لائیں۔ ایمان لانے کے بعد اپنے شوہر کے مشن میں دل و جان سے جٹ گئیں اور پرزور انداز میں خواتین میں تبلیغ شروع کردی۔ آپؐ کی کوششوں سے ام فضل، اسما بنت ابوبکر، ام جمیل، فاطمہ بنت خطاب، اسماء بنت عمیسؓ ایمان لائیں۔ حضرت خدیجہؓ صحیح معنوں میں سچی رفیق حیات اور رفیق مشن تھیں جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے کار رسالت کے سفر میں جب تک زندہ رہیں ہم سفر بنی رہیں۔

حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہ مکہ کی متمول خاتون تھیں۔ ان کی خواہش اور پیش کش پر ہی حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے نکاح کیا تھا۔

حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی نبوت کے کچھ عرصہ پہلے کا واقعہ آتا ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دفعہ مکہ سے باہر گئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ پہاڑوں کی وادیوں میں ایک قافلہ پڑاؤ ڈالے ہوئے ہے۔ انتہائی مفلوک الحال، بھوک پیاس کی وجہ سے جسم سوکھ کر کانٹا ہوچکے تھے۔ جسم پر کپڑے تک نہ تھے۔ آپؐ نے ان لوگوں کی حالت دیکھی تو بہت غمگین ہوئے۔ گھر تشریف لائے اور چادر اوڑھ کر لیٹ گئے۔ خدیجہؓ نے حالت دریافت کی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس قبیلے کا حال کہہ سنایا اور فرمایا: ’’میرے پاس اتنا مال نہیں ہے کہ میں ان کی مدد کروں یہ سن کر حضرت خدیجہؓ نے کہا: ’’جائیے ذرا جاکر مکہ کے فلاں اور فلاں سرداروں کو بلا لائیے۔ آپؐ نے ایسا ہی کیا اتنی دیر میں حضرت خدیجہؓ نے اشرفیوں کا ڈھیر لگا دیا کہ جب حضور صلی اللہ علیہ وسلم آکر بیٹھے تو اس ڈھیر کے بچے چھپ گئے۔ حضرت خدیجہؓ نے ان سرداران قریش کو مخاطب کر کے فرمایا کہ ’’آپؐ سب گواہ رہیے کہ میں نے یہ ساری دولت محمدؐ کو دے دی ہے، وہ جیسے چاہیں اسے خرچ کریں۔

اولاد کی تربیت

آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ساری اولاد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے علاوہ ام المومنین حضرت خدیجہؓ سے ہوئی تھیں۔ آپؐ نبوت ملنے سے قبل غارِ حرا میں تشریف لے جاتے اور کئی کئی دن وہاں رہ کر عبادت کیا کرتے تھے۔ اور حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کبھی شکایت نہ کرتیں بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عدم موجودگی میں اپنے بچوں کی نگرانی اور تربیت میں سرگرداں رہتیں۔ انہی کی تربیت کا نتیجہ تھا کہ حضرت فاطمہ کو جنت کی سردار ہونے کا شرف دنیا میں ہی حاصل ہوگیا۔ حضرت فاطمہ انتہائی شرم و حیا والی تھیں۔ انھوں نے بھی اپنے ماں کے نقش قدم پر چلتے ہوئے انتہائی سادگی سے اپنے شوہر کے ساتھ ایک مثالی زندگی گزاری۔ حضرت خدیجہ رضی اللہ عنہا کی ساری اولاد مشرف بہ اسلام ہوئیں۔

بہترین مشیر و مدبر

جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر پہلی وحی نازل ہوئی اور آپؐ انتہائی پریشان اور خوف زدہ ہوئے تو ام المومنین آپؐ کو اپنے چچا زاد بھائی ورقہ بن نوفل کے پاس لے گئیں جو انجیل مقدس اور تورات کے بڑے عالم تھے۔ انھوں نے پورا واقعہ سنا تو کہا کہ محمدؐ کے پاس وہی ناموس اکبر آیا ہے جو موسٰی علیہ السلام پر بھی نازل ہوتا تھا۔ ورقہ بن نوفل کی گفتگو سن کر آپؐ کی پریشانی دور ہوگئی۔

حضرت خدیجہؓ بہت باتدبیر خاتون تھیں جن کا مقصد یہ تھا کہ ان کی ذات سے ان کے محبوب شوہر اور ان کے مشن کو زیادہ سے زیادہ فائدہ پہنچے۔ ام المومنین کا کردار ایک عظیم شخصیت کی حامل، ایک مثالی خاتون، ایک مثالی بیوی کا ہے، جس نے جان مال سب کچھ اپنے محبوب شوہر کے مشن میں لگا دیا۔ اسلام کو حضرت خدیجہؓ سے بہت تقویت ملی۔

ام المومنین حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنہا کی ذات ایک مثالی بیوی اور بہترین رفیقہ حیات کے حوالے سے امت مسلمہ کی تمام خواتین کے لیے اسی طرح رہ نما ہے، جس طرح رسولِ کریمؐ کی سیرت پر مسلمان کے لیے رہ نما ہے۔

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں