عورت گلو بلائزیشن کے دور میں

شمشاد حسین فلاحی

گذشتہ چند دہائیوں میںتیزی سے فروغ پا رہے گلو بلائزیشن کے تصور نے دنیا میں کھلی تجارت کو ہی فروغ نہیں دیا بلکہ تعلیم اور ٹکنا لوجی کے پھیلاؤ میں بھی زبردست رول ادا کیا ہے۔ اس تصور نے قدیم اور فرسودہ روایات و خیالات پر مبنی سماج کے تانے بانے بھی توڑ ڈالے اور پوری دنیا میں ایک نئے کلچر اور طرزِ زندگی کو فروغ دیا۔ کھان پان کے انداز اور طرز بود و باش سے لے کر خوشیاں منانے کے انداز و اطوار تک کو بدل ڈالا۔ جن تہواروں اور خوشی کے موقعوں کا پہلے نام تک نہ سنا گیا تھا اب ان کی آمد سے پہلے ہی اس کی تیاریاں شروع ہو جاتی ہیں۔ اخبارات و الیکٹرونک میڈیا میں ان کی نسبت سے صنعتی ادارے ’’کنزومر پروڈکٹ بنانے والی کمپنیاں بڑے بڑے اشتہارات دینا شروع کر دیتی ہیں اور ان مواقع کو بھی وہ اپنی سیل میں اضافے کے لیے استعمال کرتی ہیں۔

اسی کا فیض ہے کہ دنیا کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک میں لڑکے لڑکیوں کے لیے تعلیم و روگار کے نئے امکانات پیدا ہوئے اور اب دن بہ دن پڑھتے جا رہے ہیں۔ سرکاری نوکریوں کے مقابلے نجی اداروں میں نوکریاں زیادہ قابل ترجیح ہوتی جا رہی ہیں کیوں کہ وہ زیادہ معاوضہ ادا کرتی ہیں۔ اس طرح تعلیم یافتہ نوجوان لڑکے لڑکیوں کے لیے خوش حالی اور مقابلے کا نیا دور شروع ہوا ہے۔

ان تمام خوبیوں اور فوائد کے باوجود اس گلوبلائزیشن کے کچھ ایسے تاریک پہلو بھی ہیں جنھوں نے سماج و معاشرے پر منفی اثرات مرتب کیے ہیں۔ ان اثرات میں جہاں فرسودہ روایات کا خاتمہ ہے وہیں صحت مند اقدار کی زندگی کا بھی داؤپر لگ جانا ہے۔ اس سلسلے میں کچھ کہنے سننے کے بجائے ہم خود اپنے معاشرے کا جائزہ لیں تو اندازہ ہو جائے گا۔ ہم خود سمجھ سکیں گے کہ پہلے کیا کچھ اچھا تھا جو اب یا تو ختم ہوگیا ہے یا ختم ہو رہا ہے۔ سماج میں امن و امان، انسانیت کی خدمت کا جذبہ، مضبوط معاشرتی تعلقات اور ایک دوسرے کے لیے ایثار و قربانی جیسی قدریں اب کس مقام پر ہیں۔

نئے سال کی تقریبات تو اب دنیا کے ہر شہر اور ملک کا عام کلچر ہوگئی ہیں جن میں مرد و خواتین بلا تفریق شریک ہوتے ہیں اور سب مل کر ناچتے گاتے، کھاتے پیتے اور خوشیاں مناتے ہیں، لیکن میڈیا میں آئی خبروں کے مطابق ہمارے ملک کے شہروں، دہلی اور بنگلور میں ہوئی ان محفلوں میں شریک لڑکیوں کے ساتھ کیا کچھ ہوا اسے جان کر باشعور لوگ نئی گلوبل تہذیب کا نوحہ پڑھنے لگے۔ اس موقع کی میڈیا میں دکھائی گئی تصاویر میں یہ دیکھا جاسکتا تھا کہ کس طرح ناچتے گاتے اور رقص و سرود سے لطف اٹھاتے مرد اچانک حیوان بن گئے اور انھوں نے محفل میں موجود لڑکیوں پر دست درازی شروع کر دی اور لڑکیاں ان کے چنگل سے نکل بھاگنے کے لیے چھٹ پٹاتی رہیں۔ اور پھر وہ کچھ ہوا جس سے شرافت شرم سے زمین میں دھنس گئی۔ یہ اس نئے کلچر کا ایک معمولی سا مشاہدہ تھا۔ اور ظاہر ہے یہ مشاہدہ لڑکیوں سے متعلق تھا۔ اس کی زد میں نصف انسانیت تھی۔ کوئی کہہ سکتا ہے کہ یہ ایک واقعہ تھا اور اسے پوری نصف انسانیت تک وسیع کر دینا درست نہیں۔ مگر کیا کوئی یہ سوال کر سکتا ہے کہ نئے سال کی تقریب استقبال، اس میں لڑکیوں کی شرکت، سب کامل کرنا چنا گانا، کھانا پینا اور ’’انجوائے کرنا‘‘ یہ تصور کہاں سے، کیسے اور کیوں در آیا۔ اور پھر وہی ہوا جس کا اندیشہ ہو سکتا ہے، یا جس انجام کی طرف یہ خود لے جانے والا ہے۔

یہ تو ایک واقعہ ہے جو اپنی شہرت کے سبب یا اپنی بدبختی کے سبب بڑے پیمانے پر ملک میں زیر بحث رہا لیکن کہیں اس بات کا ذکر تک نہیں آیا کہ نئے سال کی یہ تقریبات اس انداز میں منانے کی روایت ہندوستان کی تہذیب کا حصہ کیسے بن گئی اور اس قسم کی محفلیں منعقد کرنا کیا ’’سوادیشی تہذیب‘‘ کا گلا گھونٹنے کا ذریعہ نہیں ہے۔

حقیقت یہ ہے کہ گلو بلائزیشن ایک تجارتی و صنعتی نتائج و اثرات رکھنے والا عنصر ہی نہیں بلکہ تہذیبی اور ثقافتی انقلاب کا بھی ذریعہ ہے اور اس نے اسی حیثیت سے پوری دنیا کی تہذیب و ثقافت اور سماج و معاشرے پر اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کی شروعات ملٹی نیشنل کمپنیوں کے خاص ورک کلچر سے ہوتی ہے اور پھر کھان پان اور طرز بود و باش سے ہوتا ہوا ذہن و فکر تک کو زیر اثر لے لیتا ہے۔ اور اس وقت جو کیفیت سامنے ہے وہ دراصل اسی فکری تاثر کے سبب ہے۔

ذہن وفکرپر اثرانداز ہونے کے لیے جس چیز کا سہارا لیا جاتا ہے وہ ہے عورت کی آزادی کا جدید تصور، جو اپنے آپ میں اس تصور کے خلاف ایک ردعمل پر مبنی تحریک ہے جو مغربی دنیا میں عورت کے سلسلے میں صدیوں سے رائج تھا۔ کیوں کہ دنیا کی بیشتر تہذیبوں میں عورت بنیادی انسانی حقوق سے محروم تھی بلکہ فلاسفرس نے کہیں تو اسے قابل فروخت جنس بنا رکھا تھا اور کہیں اس بات پر بحث ہوتی تھی کہ عورت کے اندر انسانی روح ہے یا نہیں۔ اور جہاں کی عورت اس قدر تنگ و تاریک زندگی جیتی رہی ہو وہاں آزادی کا یہ نیا تصور یقینا عورتوں کو نوید صبح نو معلوم ہوگا۔

اس گلو بلائزیشن کے دور میں مرد و عور تکے درمیان مساوات کے نئے معیارات اور پیرا میٹرس بنائے گئے ہیں جن کی بنیاد پر معاشروں کو جانچا اور پرکھا جاتا ہے اور عورت کی آزادی کے لیے تو روزگار اور اس کی خود کفالتی کو ایسا معیار بنا کر پیش کیا گیا ہے کہ تیسری دنیا کی عورت کو ایک معطل ’ورک فورس‘ مان کر اس بات کی جدوجہد کی جا رہی ہے کہ ہر عورت اسی وقت آزاد اور مرد کے برابر قرار پائے گی جب وہ نوکری کر کے خود کماتی ہو اور اپنی ضرورت کے لیے کسی پر منحصر نہ ہو۔

ان معاشروں کے سلسلے میں تو یہ بات کسی حد تک درست ہو سکتی ہے جہاں عورت کو قابل فروخت جنس (Commodity) مانا جاتا ہو یا جہاں اسے انسان کا درجہ ہی نہ دیا جاتا ہو۔ لیکن اسلامی معاشرے کے سلسلے میں تو آزادی اور مساوات تنازعہ ہے ہی نہیں کہ اسلام اس کو وہ مقام دے چکا ہے جو کسی تہذیب یا مذہب میں نہیں۔ اگر کہیں عورت دنیا میں مظلوم اور مساوات سے محروم ہے تو اس کی وجہ اسلام نہیں بلکہ وہ سماجی اور معاشرتی روایات ہیں جن کے زیر اثر وہ معاشرہ زندگی گزارتا ہے۔

گلو بلائزیشن کے اس دور میں جسے ترقی، آزادی اور مساواتِ مرد و زن تصور کیا جاتا ہے اسے ہم عورت کا استحصال تصور کرتے ہیں اور فی الواقع وہ استحصال ہی ہے۔ اگر مساوات حقیقی معنوں میں نافذ کرنا مقصود ہوتا تو آج عورت کے خلاف ظلم و جبر اور تشدد و جرائم کا وہ سلسلہ نہ ہوتا جو پوری دنیا میں مغرب سے مشرق تک کے معاشروں میں دیکھنے کو ملتا ہے اور حقیقت میں اس کا سبب وہی تہذیب و ثقافت ہے جسے گلو بلائزیشن کے نام پر عام کرنے کی جہد مسلسل جاری ہے۔

یہ اس کا تمام روشن پہلوؤں کے باوجود سب سے تاریک پہلو ہے جس نے عورت کو تمام تر خیر اور عزت و اکرام سے محروم کر دیا ہے۔ اور ہم کسی صورت اس بات کے لیے تیار نہیں کہ کسی بھی نام پر عورت کا اکرام اور اس کا وقار مجروح ہو۔ خواہ نئی تہذیب ایسا کرے یا فرسودہ روایتی معاشرہ۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں