عہد نبوی میں خواتین کی تعلیم و تربیت

ڈاکٹر سعود عالم قاسمی

 انسانی معاشرہ مرد و عورت دونوں کی قوتوں، صلاحیتوں اور سرگرمیوں سے تشکیل پاتا ہے، اس میں کسی ایک کو نظر انداز نہیں کیا جاسکتا اور کسی کی اہمیت کم نہیں کی جاسکتی۔ ایک مہذب، باوقار اور ترقی یافتہ معاشرہ کے لیے لازم ہے کہ اس کے افراد مہذب اور تعلیم یافتہ ہوں، جس طرح کمزور اینٹیں عمارت کی قوت حیات گھٹا کر اسے کمزور بنا دیتی ہیں اسی طرح جاہل افراد بھی اپنے معاشرہ کو پستی اور تنزل سے ہم کنار کر دیتے ہیں کیوں کہ کمزور افراد پر مضبوط معاشرہ کی ضمیر ممکن ہی نہیں۔

اسلامی معاشرہ کی بنیادی خصوصیت اس کے افراد کے ایمان، علم اور سیرت و کردار کی مثالیت ہے۔ اس معاشرہ میں ایمان کا رشتہ علم سے، قدیم معاشرہ کی طرح کٹا ہوا نہیں بلکہ حد درجہ مضبوط اور مستحکم ہے۔ بلکہ اسلامی معاشرہ کی بنیادی ایمان و علم کے جڑواں نظریہ پر ڈالی گئی ہے۔ نبی کریمﷺ پر جو وحی نازل ہوئی وہ علم و ایمان کے اس مقدس و مستحکم رشتہ کا اعلان ہے، جس میں عرب کے ناخواندہ معاشرہ میں علم کی شمع روشن کی گئی ہے اور پہنی مرتبہ پڑھنے لکھنے اور علم حاسل کرنے کی اہمیت کا شعور پیدا کیا گیا ہے۔

اگر اس بات پر غور کیا جائے کہ اسلام کے آنے کے وقت گنتی کے چند لوگ لکھنا پڑھنا جانتے تھے، جن کی تعداد ۲۴ سے زیادہ نہیں تھی۔ صرف ۲۳ سال کے اندر وہ کیسے دنیا کی علمی امامت کے منصب پر فائز ہوگئے، تو سراغ یہ ملے گا کہ علم اور تعلیم کی اہمیت کا احساس پیدا کرنا اور بلاامتیاز و تخصیص معاشرہ کی ہر صنف اور ممبر کو زیور علم سے آراستہ کرنا ہی کریمﷺ کے دعوتی مشن کا بنیادی حصہ ہے۔ چنانچہ جب آپ ﷺ یہ فرماتے ہیں کہ بعثت معلمات (میں اللہ کی طرف سے معلم بنا کر بھیجا گیا ہوں) تو گویا آپ علم کی وراثت کو سند اعتبار اور تحصیل علم کو انسانی معاشرہ کی شاہ کلید بنا دیتے ہیں۔

دنیا کے سارے مذاہب کا زور عبادت، ریاضت، مشقت اوراد و وظائف پر ہے، مگر تعلیمات نبوی کی خصوصیت یہ ہے کہ ان سب کے مقابلے میں علم کی فضیلت اور اہمیت کو محسوس کرایا گیا ہے۔ آں حضورﷺ نے فرمایا کہ عبادت گزار پر عالم کی فضیلت دوسرے ستاروں پر چودھویں کے چاند جیسی ہے۔ (ابوداؤد، ترمذی)

دنیا کے دوسرے مذاہب نے علم کو مردوں کی میراچ بنا کر پیش کیا ہے کیوں کہ ان کی نظر میں عورت کسب فضیلت اور کمال کی مستحق نہیں۔ مگر اسلام نے علم کی روشنی کو مرد عورت ہر دو کے قلب و ذہن تک پہنچایا ہے اور حصول علم میں مرد و عورت کی تخصیص کو تسلیم نہیں کیا ہے، بلکہ مرد و عورت دونوں پر علم حاصل کرنے کو فرض قرار دیا ہے۔ نبی کریمﷺ نے فرمایا طلب العلم فریضۃ علی کل مسلم و مسلمہ (ابن ماجہ کتاب العلم)

ترجمہ: ’’علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔‘‘

عہد نبوی صلعم کے تعلیمی نظام پر نظر ڈالئے۔ یہاں تعلیم کے مختلف طریقے اور وسیلے اختیار کیے گئے ہیں اور مرد و عورت دونوں کو یکساں استفادہ کا موقع عطا کیا گیا ہے۔ نبیﷺ نے جو طریقے اپنی امت کو تعلیم دینے کے لیے اختیار فرمائے ان میں ابلاغ و ترسیل کے نقطہ نظر سے اہم یہ ہیں۔

٭ مسجد نبوی میں نمازوں کے بعد تعلیم و تلقین، اس میں مرد و عورت سبھی شریک ہوتے تھیـ

٭ جمعہ، عیدین اور حج کے خطبات کے ذریعے عمومی تعلیم و تہذیب، اس میں بھی سبھی شریک ہوتے تھے۔

٭ مجلس خصوصی جو مسجد نبوی یا دوسرے مقامات پر مردوں کے لیے ہوتی تھی۔

٭ ازواج مطہرات کی علمی مجلس جو خاص عورتوں کے لیے ہوتی تھی۔

٭ جنگ اور دوسرے ایسے اسفار جن میں مردوں کے ساتھ عورتیں بھی شریک رہتیں، وہاں بھی عملی تعلیم کا موقع ملتا تھا۔

٭ روز مرہ کے در پیش مسائل جو بلا تکلف نبی اکرمؤ کے سامنے پیش کیے جاتے تھے اور نبی کریمؤ ان کے تفصیلی اور تشفی بخش جوابات عطا فرماتے تھے۔

٭ عورتوں کی تعلیم کے لیے نبیﷺ کی خصوصی مجلسیں، یہ عورتوں کی درخواست پر خاص ان کے لیے مقرر کی جاتیں۔

٭ نبیﷺ کا اپنی ازواج مطہرات کو خاص تعلیم و تربیت سے آراستہ فرمانا تاکہ وہ دوسری خواتین کی تعلیم و تربیت میں حصل لے سکیں۔

٭ بیعت کے مواع جن میں آپ عورتوں سے اصول دین پر بیعت لیتے اور ان کو بنیادی احکامات سے نوازتے وغیرہ۔

نبیﷺ کے خطبات اور مواعظہ کا جواثر صحابہ کرام پر ہوتا تھا صحابیات اس سے محروم نہ رہتیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس فرماتے ہیں کہ نبی ﷺ (عید کے موقع پر) حضرت بلال کے ساتھ نکلے۔ آپ کو ہی خیال گزرا کہ آپ کا خطاب خواتین اچھی نہ سن سکیں۔ لہٰذا آپ نے ازسرنو ان کو خطاب کیا اور ان کو صدقہ کا حکم دیا، چنانچہ عورتیں اپنے پازیب اور انگوٹھیاں صدقہ کرنے لگیں اور بلال اپنے کپڑے میں ان صدقات کو سمیٹنے لگے۔ (بخاری)

روز مرہ کے پیش آنے والے مسائل میں عورتیں اپنی مشکلات لے کر نبی کریمﷺ کے پاس جاتیں اور اپنے ساولات کا جواب حاصل کرتیں، عورتوں کے بعض سوالات ایسے بھی ہوتے جن میں براہ راست اللہ تعالیٰ اپنی آیات نازل کر کے رہنمائی فرماتا۔ مثال کے طور پر خولہ بنت ثعلبہ نے اپنے شوہر اوس کی شکایت کی اور ان کے قصہ ظہار میں استفسار کیا تو جواب میں سورہ المجادلہ کی ابتدائی آیات نازل ہوئیں، جن سے متعلقہ مسند میں ہمارے مسلمانوں کی رہنمائی ہوئی۔

عورتوں کے بعض سوالات طبعی طور پر ان کی نسوانی ضروریات اور مشکلات سے متعلق ہوتے مگر علم کی فرضیت کا احساس ان کی شرم و حیا پر حاوی ہوتا اور وہ نبی کریمﷺ سے سارے سوالات کرتیں، چنانچہ حضرت ام سلمہ بیان کرتی ہیں کہ حضرت انس بن مالک کی والدہ ام سلیم رسول اللہﷺ کے پاس آئیں اور کہنے لگیں اے اللہ کے رسولﷺ اللہ حق بیان کرنے میں حیا نہیں کرتا، تو کیا عورت کو اگر احتلام ہو تو اس پر غسل کرنا لازم ہے؟ آپ نے فرمایا، ہاں اگر وہ پانی دیکھے، تو ام سلمہ نے اپنا چہرہ ڈھانک لیا اور پوچھا اے اللہ کے رسول کیا عورت کو بھی احتلام ہوتا ہے؟ آپ نے فرمایا ہاں اگر ایسا نہ ہو تو اس سے بچہ کی مشابہت کس طرح ہوتی ہے؟ (بخاری)

عہد نبوی کی عورتیں، بالخصوص انصاری خواتین۔ نبی ﷺ سے ہر قسم کی بات پوچھنے میں کوئی عار محسوس نہیں کرتی تھیں۔یہ کمال تھا نبی عربی کا کہ آپ نے شرم و حیا اور غیرت کو علم سے وابستہ کردیا تھا۔ گویا علم حاصل کرنا ہی عورتوں کا زیور قرار پاتا اسی سے شرم و حیا کی دولت وابستہ ہوئی۔ حضرت عائشہ انصار کی عورتوں کی تعریف کرتے تھے کہتی تھیں کہ بہترین عورتیں انصار کی عورتیں ہیں۔ ان کے لیے دین کا علم حاصل کرنے میں حیا رکاوٹ نہیں بنتی۔ (ایضا)

خود حضرت عائشہ جب رسول کریم سے کوئی بات سنتیں تو جب تک اس کی جملہ تفصیل نہ سمجھ لیتیں خاموش نہ ہوتیں۔ صحیح احادیث میں حضرت عائشہ کے استفار کے بہت سے واقعات مذکور ہیں۔

تعلیمات نبوی کی وہ مجلسیں جہاں عورتیں پچھلے حصہ میں موجود ہوتیں، فطری طور پر مردوں کے غلبہ کی وجہ سے بہت سی باتوں کی تفصیل، وضاحت اور تشریح کی محتاج رہتیں ان کی خواہش ہوتی کہ نبی ﷺ مردوں سے الگ ہوکر کوئی خاص وقت ہمارے لیے مقرر فرماتے جس میں ہم آپ سے پورے طور پر اطمینان سے دین کی تعلیم حاصل کرتے۔ چنانچہ بہ روایت حضرت ابو سعید خدری، عورتوں نے مل کر نبیﷺ سے یہ درخواست کی، آپ کے پاس مرد ہم پر سبقت لے جاتے ہیں، اس لیے آپ اپنی طرف سے ایک دن ہمارے لیے مقرر فرما دیں، چنانچہ آپ نے ان سے ایک دن کا وعدہ فرمالیا۔ آپ اس دن عورتوں سے ملاقات کرتے، ان کو وعظ و نصیحت کرتے اور ان کو احکام عطا فرماتے۔ (بخاری)

نبیﷺ ازواج مطہرات کی خصوصی تعلیم و تربیت فرماتے تھے۔ قرآن کریم نے بھی ازواج مطہرات کی خصوصی تعلیم و تربیت پر زور دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کو عام عورتوں سے ممتاز قرار دیتے ہوئے فرمایا کہ ’’اور نماز قائم کرو اور زکوۃ دو اور اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرو اللہ تو یہ چاہتا ہے کہ تم اہل بیت سے گندگی کو دور کردے اور تمہیں پوری طرح پاک کردے اور یاد کرو اللہ کی آیات اور حکمت کی ان باتوں کو جو تمہارے گھروں میں سنائی جاتی ہیں۔‘‘

نبی ﷺ اپنے معمولات اور سیرت کی عملی تعلیم کے علاوہ بھی ازواج مطہرات کے تزکیہ اور تربیت کے لیے بعض طریقے اختیار فرماتے۔ مثلاً کبھی کبھی آپ رات کو ازواج مطہرات کو یہ کہہ کر جگاتے اور ان کو رات کی عبادت اور آخرت فکر کی تعلیم دیتے۔ ایک مرتبہ آپ نے ازواج مطہرات کو یہ کہہ کر جگایا، اے حجرہ والیو اٹھو بہت خوش لباس عورتیں قیامت میں برہنہ ہوں گی۔ (بخاری) یعنی جو دنیا میں بظاہر لباس میں ہیں مگر ایمان و عمل صالح سے خالی ہیں وہ آخرت میں اللہ کے غضب میں ہوں گی۔ یہ تربیت اس لیے بھی ضروری تھی کہ ازواج مطہرات کو دوسری عورتوں کے لیے نمونہ اور معلمہ بننا تھا۔ معلم کو مثالی اورآئیڈل ہونا چاہیے۔

اسلام پر قائم اور اللہ کے فرمان کے مطابق زندگی گزارنے کے لیے رسول اللہ مرد و عورت دونوں سے بیعت لیا کرتے تھے۔ عورتوں سے جن باتوں پر بیعت لیا کرتے تھے وہ قرآن میں اس طرح مذکور ہے۔

’’اے نبی جب آپ کے پاس مومن عورتیں بیعت کرنے کے لیے آئیں اور اس بات کا عہد کریں کہ وہ اللہ کے ساتھ کسی کو شریک نہ کریں گی، چوری نہ کریں گی، زنا نہ کریں گی، اپنی اولاد کو قتل نہ کریں گی، اپنے سامنے کوئی بہتان گڑھ کر نہ لائیں گی اور معروف میں آپ کی نافرمانی نہ کریں گی تو ان سے بیعت لے لو اور ان کے لیے دعائے مغفرت کرو۔ بے شک اللہ درگزر کرنے والا اور رحم کرنے والا ہے۔

حضرت عائشہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ اسی آیت کی تفصیل کے مطابق عورتوں سے بیعت لیا کرتے تھے۔ (بخاری)

حضرت ام عطیہ فرماتی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب مدینہ تشریف لائے تو انصار کی عورتوں کو ایک گھر میں جمع کیا پھر حضرت عمر کو ان کے پاس بھیجا کہ وہ ان سے رسول اللہ کی جانب سے بیعت کریں، جس کی تفصیل مندرجہ بالا آیت میں گزری ہے۔ (تفسیر ابن کثیر)

مذکورہ طریقے وہ تھے جن میں خواتین کو براہ راست نبی ﷺ سے استفادہ اور علم حاصل کرنے کا موقع ملتا۔ ان کے علاوہ صحابہ کرام کو یہ حکم تھا کہ وہ اپنی بیویوں، بیٹیوں اور باندیوں کی تعلیم و تربیت کا انتظام کریں۔ ان کو دینی احکام سے غافل اور اسلامی تعلیم سے جائل نہ رہنے دیں۔

نبیﷺ نے فرمایا کہ تین آدمی ایسے ہیں جن کو دوہرا اجر دیا جائے گا، ان میں ایک وہ شخص ہے جس کے پاس باندی تھی اور اس نے اس کی اچھی تربیت کی اور اچھی تعلیم دی، پھر اسے آزاد کر کے شادی کرلی تو اسے دو اجر ملیں گے۔ (بخاری)

نبی ﷺ کی اس تربیت کا اثر یہ ہوا کہ صحابہ نے اپنی باندیوں کو تعلیم دینی شروع کردی۔ آپ نے لڑکیوں کی تعلیم پر خصوصی توجہ فرمائی۔ عرب کے معاشرہ میں لڑکیوں کو حقارت سے دیکھنا اور ان سے بدسلوکی کرنا عام تھا۔ آں حضرت نے اس صورت حال کو تبدیل کرنے پر بہت زور دیا۔ بہ روایت ابو سعید خدری رسول اللہﷺ نے فرمایا۔ ’’جس نے تین لڑکیوں کی پرورش کی ان کو ادب سکھایا، ان پر رحم کیا اور ان سے حسن سلوک کیا تو اس کے لیے جنت ہے۔‘‘ (مسند احمد)

قابل ذکر بات یہ ہے کہ لڑکیوں کی تعلیم و تربیت اور ان سے حسن سلوک پر بھی یکساں اجر ہے، مگر آپ نے لرکیوں کی تعلیم و تربیت پر جنت کی بشارت سنائی۔ حکمت اس میں یہ ہے کہ ایک لڑکے کی تعلیم محض ایک فرد کی تعلیم ہے اور ایک لڑکی کی تعلیم ایک فرد کی نہیں بلکہ ایک کاندان کی تعلیم ہے۔ کیوں بچوں کی تعلیم و تربیت ماں کی گود سے جڑی ہوئی ہے۔ ماں اگر جاہل ہو تو بچے پر اس کا برا اثر پڑتا ہے۔

اس انقلابی تعلیم و تربیت کا یہ اثر ظاہر ہوا کہ عورتیں اسلامی معاشرہ کی تعمیر و تشکیل اور اسلامی علوم کی اشاعت و ترویج میں برابر کا کردار ادا کرنے لگیں۔ اسلامی معاشرہ تیزی سے ترقی کی راہ پر گامزن ہوا اور دنیا کی علمی امامت جس سے عزت و اقتدار و احترام سبھی کچھ وابستہ ہے مسلمانوں کے ہاتھ آگئی۔ عورتوں کا علم و فہم اس درجہ قابل رشک اور معتبر بن گیا کہ وہ بسا اوقات علما، امرا، اور خلفا کو مشورہ سے نوازتیں، ان کی غلطیوں کی اصلاح کرتیں اور ان کو راہ عمل دکھاتیں۔ مشکلات میں ان کی مدد کرتیں اور ان کو اجتماعی ذمے داریوں سے عہدہ برآ ہونے میں اپنا تعاون پیش کرتیں۔ مثال کے طور پر حضرت عمر فاروق اپنے معمول کے مطابق ایک رات گشت لگا رہے تھے کہ ایک گھر سے کسی خاتون کی آواز سنائی دی۔ وہ اپنے شوہر کی جدائی میں یہ اشعار پڑ رہی تھی۔

ترجمہ:’’ رات طویل ہوگئی اور اس کا کنارہ سیاہ ہوگیا، میرا محبوب نہیں ہے کہ میں اس سے دل لگی کرتی، قسم اللہ کی اگر اللہ کا خوف نہ ہوتا تو اس بشتر کے پہلو حرکت میں آجاتے۔‘‘

حضرت عمر نے یہ سنا تو اپنی صاحب زادی زوجہ رسول حضرت حفصہ کے پاس گئے اور پوچھا ایک عورت اپنے شوہر کی جدائی کتنے دنوں برداشت کرسکتی ہے تو انھوں نے جواب دیا چار یا چھ ماہ۔ تب حضرت عمر نے فیصلہ کیا کہ میں کسی بھی لشکری کو اس سے زیادہ نہیں روکوں گا۔‘‘ (طبقات الشافعیہ)

حضرت ابوبکر کی صاحب زادی زوجہ رسول حضرت عائشہ سے نہ صرف عام صحابہ دین کی تعلیم حاصل کرتے بلکہ وہ اپنی سماجی اور سیاسی معاملات میں بھی صحابہ کرام کی رہنمائی بھی فرماتیں۔ بہت سے جلیل القدر صحابہ کی علمی دینی اور سماجی اصلاحات بھی انھوں نے کیں۔ بہت سی غلط فہمیاں جو علمی لحاظ سے نقصان دہ تھیں ان کو دور کرنے کا سہرا حضرت عائشہ کے سر رہا ہے۔ حضرت عائشہ رضی اللہ کی علمی دینی اصلاحات کا تذکرہ مختلف کتب حدیث میں لکھا اور بکھرا ہوا ہے، مگ رعلامہ بدر الدین زرکیتی نے الاجابہ لایراد الاستدرکنہ عائشہ علی الصحابہ میں اور ان کے پدر علامہ جلال الدین سیوطی نے عین الاصابہ استدراک حضرت عائشہ علی الصحابہ میں ان کو جمع کر دیا ہے۔ اس سے معلوم ہوتا ہے کہ تعلیم نبوی نے ان خواتین کو کس قدر علم و فہم میں مستحکم بنا دیا تھا کہ جن مسائل کی کہنہ تک صحابہ کرام نہ پہنچ سکے وہاں حضرت عائشہ کی رہنمائی کام آئی۔

حضرت ابو موسیٰ فرماتے ہیں کہ ہم اصھاب محمدﷺ کو جب کوئی حدیث مشکل معلوم ہوتی تو ہم حضرت عائشہ سے پوچھتے اور ان کو اس کا علم ہوتا (موطا امام مالک تعلیم،ص۹۵۴)۔ اسی طرح دوسری صحابیات کی عقل و فہم اور اصابت رائے سے اصھاب کرام کے استفادہ کا تذکرہ ملتا ہے، ازواج نبی کے علاوہ شفا بنت عبد اللہ جن سے حضرت عمر مشورہ لیتے اور عمرہ بنت فاطمہ جن کے گھر حضرت عمر کی شہادت کے وقت خلیفہ انتخاب کے لیے مجلس شوری بیٹھی، خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

غرض کہ عہد نبویﷺ میں خواتین کی تعلیم و تربیت کا نظام مردوں سے کچھ کم نہ تھا، نہ مواقع کم تھے اور نہ تعلیم کے معیار و مقدار میں کوئی کمی برتی گئی۔ اس زمانے میں باقاعدہ مدرسہ کا رواج نہ تھا۔ اگر مردوں کے لیے کوئی مدرستہ قائم کیا جاتا تو نبی رحمت لازما عورتوں کے لیے الگ مدرسہ قائم کرتے۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ اگر صفہ مسجد نبوی میں مردوں کی درس گاہ تھی تو نبی عربی کا گھر عورتوں کی درس گاہ تھی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں