عیادت کی فضیلت

حافظ افروغ حسن

عیادت کی فضیلت

رسول اللہﷺ نے فرمایا: قیامت کے روز خدا فرمائے گا:‘‘ اے آدم کے بیٹے! میں بیمار پڑا اور تونے میری عیادت نہیں کی۔‘‘ بندہ کہے گا۔ ’’پروردگار! تو ساری کائنات کا رب ، بھلا میں تیری عیادت کیسے کرتا؟‘‘ خدا کہے گا: ’’میرا فلاں بندہ بیمار ہوا، تونے اس کی عیاد ت نہیں کی۔ اگر تو اس کے پاس جاتا اور اس کی عیادت کرتا تو مجھے وہاں پاتا (یعنی میری رضا اور میری رحمت کا مستحق قرار پاتا۔‘‘ (مسلم)

حضرت ابو ہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہؐ نے فرمایا: جب کوئی مسلمان اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کے لیے جاتا ہے تو ایک پکارنے والا آسمان سے پکارتا ہے: ’’تم اچھے رہے تمھارا چلنا اچھا رہا۔ تم نے اپنے لیے جنت میں ٹھکانا بنا لیا۔‘‘ (ترمذی)

حضرت ابو موسیٰ اشعری راوی ہیں کہ نبی کریمؐ نے فرمایا: ’’بیمار کی عیادت کرو، بھوکے کو کھانا کھلاؤ اور قیدی کی رہائی کا انتظام کرو۔‘‘ (بخاری)

حضرت ثوبانؓ بیان کرتے ہیں کہ نبیؐ نے فرمایا: ’’جب کوئی مسلمان اپنے بھائی کی بیمار پرسی کے لیے جاتا ہے تو واپسی تک غرفہ جنت میں رہتا ہے۔‘‘ صحابہؓ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! غرفہ جنت سے کیا مراد ہے؟‘‘ آپؐ نے فرمایا: ’’جنت کے میوے … گویا وہ جنت کے میوے چنتا رہتا ہے جو آخرت میں اس کے کام آئیں گے۔‘‘ (مسلم)

حضرت علیؓ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہؐ کو فرماتے سنا ہے:’’ کوئی مسلمان اگر صبح کے وقت اپنے مسلمان بھائی کی عیادت کرتا ہے تو شام تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے دعا گو رھتے ہیں اور اگر اس نے شام کو عیاد ت کی تو صبح تک ستر ہزار فرشتے اس کے لیے دعا کرتے رہتے ہیں اور اس کے لیے جنت میں پھلوں کا ذخیرہ محفوظ کر دیا جاتا ہے۔ (ترمذی)

عیادت ایک اسلامی فریضہ ہے لیکن محسن انسانیتؐ نے اپنے اس فیض اور اپنی اس رحمت کو غیر مسلموں کے لیے بھی عام کر دیا۔ ا ٓپؐ غیر مسلموں کی عیادت میں بھی کوئی عار محسوس نہیں کرتے تھے بلکہ اپنے اس خلق عظیم سے ان کے دلوں میں اسلام کی حقانیت کا نور منتقل کرنے کی کوشش بھی فرماتے۔ حضرت انسؓ بن مالک بیان کرتے ہیں کہ ایک یہودی لڑکا حضورؐ کی خدمت کیا کرتا تھا۔ وہ بیمار پڑا تو آپؐ اس کی عیادت کے لیے تشریف لے گئے، اس کے سرہانے بیٹھے اور اس سے کہا کہ اسلام لے آ۔ اس نے اپنے باپ کی طرف دیکھا جو وہیں موجود تھا۔ اس نے کہا تو ابو القاسم (ﷺ) کا کہنا مان، چناں چہ وہ اسلام لے آیا۔ اس کے بعد آپؐ ا سکے یہاں سے یہ کہتے ھوئے نکلے: ’’شکر ہے اللہ کا جس نے اسے جہنم سے بچا لیا۔‘‘ (بخاری)

عیادت کے آداب

رسول کریمﷺ کسی مریض کی عیادت کے لیے تشریف لے جاتے تو حوصلہ افزا کلمات سے اس کو تسلی دیتے، صبر کی تلقین فرماتے اور ساتھ ہی اس کی صحت کی بحالی کے لیے دعا کرتے۔ اس سلسلے میں چند احادیث ملاحظہ کیجیے۔

حضرت ابن عباسؓ راوی ہیں کہ رسول اللہﷺ جب کسی مریض کی عیادت کو جاتے تو اس کے سرہانے بیٹھتے، اس کے بعد سات بار فرماتے: ’’میں عظیم خدا سے جو عرش عظیم کا رب ہے، سوال کرتا ہوں کہ وہ تجھے شفا بخشے۔‘‘ آپؐ نے ارشاد فرمایا کہ یہ کلمات سات بار پڑھنے سے مریض ضرور شفایاب ہوگا الا یہ کہ اس کی موت ہی آگئی ہو۔‘‘ (مشکوٰۃ)

حضرت جابرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ ایک بوڑھی عورت ام السائب کی عیادت کے لیے تشریف لائے۔ وہ خاتون بخار کی شدت سے کانپ رہی تھی۔ پوچھا کیا حال ہے؟ خاتون نے کہا کہ خدا اس بخار کو سمجھے، اس نے گھیر رکھا ہے۔یہ سن کر آپؐ نے فرمایا: ’’بخار کو برا بھلا نہ کہو۔ یہ مومن کے گناہوں کو اس طرح صاف کرتا ہے جیسے آگ کی بھٹی لوہے کے زنگ کو صاف کر دیتی ہے۔‘‘ (ادب المفرد)

حضرت زیدؓ بن ارقم کہتے ہیں کہ ایک بار میری آنکھیں دکھنے لگیں۔ آپؐ میری عیاد ت کے لیے تشریف لائے او رکہنے لگے: ’’زید! تمہاری آنکھوں میں تکلیف ہے۔ تم کیا کرتے ہو؟‘‘ میں نے کہا کہ صبر سے کام لیتا ہوں۔ آپؐ نے فرمایا: ’’تم نے آنکھوں کی اس تکلیف میں صبر سے کام لیا، اس کے صلے میں تمہیں جنت ملے گی۔‘‘

حضرت ابن عباسؓ راوی ہیں کہ ہادی عالمؐ نے ایک بدو کی عیادت فرمائی اور آپؐ جب بھی کسی کے ہاں عیاد ت کے لیے تشریف لے جاتے تو یہ الفاظ ضرور فرماتے: ’’فکر کی کوئی ضرورت نہیں۔ انشاء اللہ جلد ہی بیماری کی تکلیف سے نجات حاصل ہوگی اور یہ بیماری گناہوں کی آلودگی دور کرنے کا ذریعہ ثابت ہوگی۔‘‘ (بخاری)

صحابہؓ کا معمول

صحابہ کرامؓ مریضوں کی عیادت کو اپنا فرض خیال کرتے تھے او رہر قسم کی تکلیف اٹھا کر بھی یہ فریضہ انجام دیتے۔ ایک بار حضرت سعدؓ بن عبادہ بیمار ہوئے۔ رسول اللہﷺ نے فرمایا: ’’تم میں سے کون ان کی عیادت کرے گا؟‘‘ اس وقت غربت و افلاس کا دور دورہ تھا۔ صحابہ کرامؓ کے پاؤں میں جوتے تھے نہ موزے۔ سروں پر ٹوپیاں تھیں نہ تن پر پورے کپڑے۔ اس کے باوجود دس پندرہ اشخاص ننگے سر اور ننگے پاؤں پتھریلی زمین پر چل کر گئے اور ان کی عیادت کی۔ (مسلم)

ایک دفعہ ایک صحابی بیمار ہوئے۔ حضرت ام الدرداء اونٹ پر سوار ہوکر ان کی عیادت کے لیے آئیں۔ (ادب المفرد)

ایک روز حضرت شدادؓ بن اوس شام کے وقت کہیں جا رہے تھے۔ کسی نے پوچھا ’’کہاں کا ارادہ ہے؟‘‘ بولے ’’میں ایک مریض بھائی کی عیادت کے لیے جا رہا ہوں۔‘‘ (مسند احمد)

صحابہ کرامؓ اپنے مریض بھائیوں کی تیمار داری نہایت دل سوزی سے کرتے تھے۔ حضرت عبد اللہ بن مظعون مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ منورہ آئے تو انہیں رھائش کے لیے حضرت ام العلاءؓ کے قریبی مکان میں جگہ ملی۔ وہ بیمار ہوئے تو حضرت ام العلاءؓ کے پورے خاندان نے نہایت دلسوزی سے ان کی تیمار داری کی۔ ان کا انتقال ہوا تو کفن پہنانے کے بعد حضرت ام العلاءؓ نے محبت بھرے انداز میں کہا: ’’تم پر خدا کی رحمت ہو، میں شھادت دیتی ہوں کہ خدا وند کریم نے تمہیں عزت وعظمت کی خلعت سے سرفراز فرمایا ہے۔ (بخاری)

ام المومنین سیدہ زینب بنت جحش عہد فاروقی میں بیمار ہوئیں۔ یہ ان کی وہ بیماری تھی جس سے وہ جانبر نہ ہوئیں۔ حضرت عمر فاروقؓ نے ازواجِ مطہرات سے دریافت کرایا کہ ان کی خبر گیری اور تیمار داری کون کرے گا؟ تمام امہات المومنین نے متفقہ طور پر جواب میں کہلوایا: اپنی اس بہن کی خدمت اور عیادت ہم خود کریں گی۔‘‘ (ازواج مطہرات حصہ دوم بحوالہ طبقات ابن سعد)

صحابہ کرامؓ جب کبھی اپنے کسی بیمار بھائی کی عیادت کی خاطر اس کے گھر تشریف لے جاتے تھے تو شرم و حیا اور غض بصر کے تمام آداب پوری طرح ملحوظ رکھتے اور احتیاط کے ساتھ اس انداز میں بیٹھتے کہ گھر کی خواتین پر نظر نہ پڑے۔

ایک مرتبہ حضرت عبد اللہؒ بن مسعود کسی بیمار کی مزاج پرسی کے لیے اس کے گھر تشریف لے گئے۔ ان کے ہمراہ کچھ او رلوگ بھی تھے۔ گھر میں ایک خاتون بھی موجود تھی۔ ابن مسعودؓ کو جب محسوس ہوا تو فرمایا: ’’اگر تم اپنی آنکھیں پھوڑ لیتے تو تمہارے حق میں بہت بہتر ہوتا۔‘‘ (آداب زندگی)۔ lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں