بے چینی اس کے اندر بھرگئی تھی، جو کچھ وہ دیکھ رہا تھا وہ اس کے لیے ناقابلِ برداشت تھا، مگر وہ بے بس تھا، مجبور تھا۔ اپنی بے بسی پر اُسے اذیت ناک جھنجھلاہٹ ہورہی تھی۔ نہ چاہتے ہوئے بھی جو کچھ وہ دیکھ رہا تھا وہ اس کا دل دہلادینے والا تھا۔ اس کا جی چاہ رہا تھا کہ وہ اپنے چہرے سے آنکھیں نوچ کر پھینک دے مگر یہ اس اذیت کا حل نہیں جو وہ سہہ رہا تھا۔
اس کے کانوں میں نفرت و تعصب کی آگ بھڑکانے والے بھاشن اور مارنے اور کاٹنے والے نعرے گونج رہے تھے۔ اس کی نگاہوں کے سامنے دنگوں کے مناظر کسی خوفناک فلم کے سین کی طرح بدل رہے تھے۔
جلتے مکانات، ہاتھ کی مٹھی لبوں پر رکھے سسکتی عورتیں، روتے بلکتے بچے، خون میں لت پت لاشیں، سڑکوں پر جابجا جیلی کی طرح جما ہوا انسانوں کا لہو اور اسے چاٹتے ہوئے کتے جو اس لہو کو چاٹ کر ایک دوسرے کی طرف حیرت سے دیکھ کر گویا کہہ رہے ہوں کہ سارے انسانوں کے خون کا رنگ اورمزہ تو ایک جیسا ہے یار، پھر یہ آپس میں لڑتے کیوں ہیں؟ کیوں جان سے مار ڈالتے ہیں ایک دوسرے کو!
سین بدلا!
ایک جنونی بھیڑہاتھوں میں اوزار اور ہتھیار لیے سرکاری سڑک پر آگے بڑھ رہی تھی۔ بھیڑ کے ہر فرد کے اندر وہ آگ دہک رہی تھی جو نفرتوں کے چولہے دہکا کر اپنی سیاست کی روٹیاں سینکنے والوں نے ان کے اندر لگائی تھی۔ فلک شگاف دھارمک نعرے اس کے کانوںمیں گونج رہے تھے ، وہ دیکھ رہا تھا کہ بھیڑ کے ہر شخص کا چہرہ غصہ سے تمتمایا ہوا ہے، ان کے اندر جوش بھرا ہے۔ تخریبی جوش!
بھیڑ اس تاریخی عبادت گاہ کی طرف بڑھ رہی تھی جو ’بابری مسجد‘ کے نام سے مشہور ہے۔
’ایک دھکا اور دو بابری مسجد توڑ دو!‘ اس قسم کے نعروں سے بھیڑ کو اکسایا جارہا تھا ….اور پھر بھیڑ نے مسجد پر دھاوا بول دیا۔ دیکھتے ہی دیکھتے مسجد ملبے کا ڈھیر بن چکی تھی اور وہ کچھ نہ کرسکا تھا۔ بس دیکھتا رہ گیا تھا۔ ایک بے بس اور مجبور انسان کی طرح۔ آزاد دیش میں ایک غلام شہری کی طرح۔
سین بدلا!
پھر اسے بھیڑ دکھائی دی بہت سارے چہرے وہی تھے جو اس نے تخریبی جوش سے بھری بھیڑ میں دیکھے تھے۔ وہ بھیڑ عدالت کی عمارت کی طرف بڑھ رہی تھی۔ اس سے رہا نہ گیا، صبر و ضبط کا بندھن ٹوٹ گیا۔ وہی جوش اس کے اندر امڈ آیا جو اس کے خون میں شامل تھا۔ وہ جی داری سے آگے بڑھا۔ عدالت کی طرف جانے والی سڑک کے درمیان بازو پھیلائے کھڑا ہوگیا۔ بھیڑ اس کی طرف بڑھ رہی تھی۔
’’رک جاؤ۔ میں تمہیں آگے نہیں بڑھنے دوں گا۔ میری بات سنو! انصاف ہے تو دیش میں امن، شانتی اور ترقی ہے۔ انصاف ہے تو ہمارا سماجی تانا بانا قائم ہے۔ انصاف ہے توہمارا بھائی چارہ ہے۔ انصاف ہمارے سماج کی آتما ہے۔ میں تمہیں انصاف کے مندر پر حملہ نہیں کرنے دوں گا….‘‘ وہ چیخ رہا تھا۔
اس کی چیخ سن کر پاس سوئی ہوئی اس کی بیوی جاگ گئی۔
کمرے کے زیرو بلب کی مدھم روشنی میں اس نے دیکھا، اس کا شوہر تکیے پر اپنا سر دائیں بائیں ہلاتے ہلاتے تقریباً چیخ رہا تھا ’’حملہ نہیں کرنے دوں گا، حملہ نہیں کرنے دوںگا، یہ نہیں ہوسکتا جب تک میں زندہ ہوں! ابھی میں زندہ ہوں۔‘‘
ہڑبڑا کر وہ اٹھ بیٹھی تھی۔ اس نے شوہر کا بازو پکڑ کر ہلایا’’کیوں جی! کیا ہوگیا آپ کو!‘‘
شوہر نے آنکھیں کھولیں، کہنی کی ٹیک سے اٹھا اور پھر سر جھکاکر بستر پر بیٹھ گیا۔
’’کیا ہوگیا آپ کو؟!‘‘ بیوی پوچھنے لگی۔ ’’کیوں کہہ رہے تھے، حملہ نہیں کرنے دوں گا، حملہ نہیں کردوں گا۔ کہیں آپ پر آج سے اٹھائیس سال بعد پھر وہی دورہ تو نہیں پڑا! 1992ء کے بعد آپ کی ایسی ہی کیفیت تو ہوگئی تھی۔ ڈاکٹر کو دکھانا پڑا تھا تب کہیں جاکر طبیعت سنبھلی تھی۔ آپ کو ویسا تو نہیں لگ رہا ہے؟!‘‘ بیوی نے خوفزدہ لہجے میں پوچھا۔
’’…….‘‘ جواب میں وہ کچھ نہ بولا۔ خاموش سرجھکائے بیٹھا رہا۔
’’بتائیے نا کیا ہوگیا آپ کو؟ گھر کی تو کوئی پریشانی نہیں ہے۔ کتنی خوش حال زندگی ہے اپنی۔بیٹا برسرروزِ گار، فرماں بردار ہےاور بہو خدمت گزار۔ نہ معاشی پریشانی ہے نہ کوئی دکھ۔ آپ سارے جہاں کا درد اپنے سینے میں دبائے کیوں جیتے ہو جی!‘‘ عالم بے قراری میں بیوی اس کے اور قریب کھسک آئی تھی اور اس کے زانو پر ہاتھ رکھ دیا تھا۔
اس نے سر اٹھا کر بیوی کا چہرہ دیکھا، زیروبلب کی مدھم روشنی میں اسے اپنی بیوی کا چہرہ نہایت غمگین اور اداس سا لگ رہا تھا۔ تاہم وہ جواب میں کچھ نہ بول سکا۔
’’کیا خواب دیکھا آپ نے بتائیے نا!‘‘ بیوی نے بے قراری میں ہاتھ سے اس کا زانو دبایا۔
’’خواب بتانے کے نہیں، بھول جانے کے لیے ہوتے ہیں۔‘‘ وہ بیوی کی بے قراری کو ختم کرنے کی خاطر اپنی کیفیت چھپاتے ہوئے بمشکل مسکرانے لگا۔ بیوی کو اس کے متبسم لب دیکھ کر کچھ قرار آیا۔ بولی ’’سوجائیے، میں آپ کے سر میں تیل ڈال دیتی ہوں۔‘‘
’’نہیں! مجھے نیند کی گولی دے دو۔‘‘
’’کیا آپ نے نیند کی گولی نہیں کھائی؟‘‘
’’کھائی تھی، مگر وہ بے اثر ہوگئی۔‘‘
’’دو گولی زیادہ ہو جائیں گی نا‘‘ بیوی نے کہا : ’’آدھی گولی دے دیتی ہوں۔‘‘
’’نہیں!—ایک دھکا اور دو……‘‘
’’ارے، یہ کیا کہہ رہے ہیں آپ!—‘‘ بیوی کا لہجہ حیرانی والا تھا۔
اسی دم اسے احساس ہوا کہ وہ حقیقت اور کے خواب درمیان لٹکے ہوئے اذیت سے باہر نہیں آیا ہے۔ فوراً بیوی کو خوش کرنے کے لیے پینترابدلا۔ ہنس کربولا: ’’زبان پھسل گئی تھی یار— لاؤ ایک گولی اور دو۔ نہیں تو میں سو نہیں پاؤں گا۔‘‘ وہ گولی پانی کے گھونٹ کے ساتھ نگل کر لحاف اوڑھے لیٹ گیا۔
بیوی اس کے سر کے سفید بالوں میں اپنے جھریوں زدہ ہاتھ کی انگلیوں سے کنگھی کرنے لگی۔
بوڑھی بیوی کی جھریوں بھری انگلیوں کی سرسراہٹ اور نیند کی گولی کا اثر۔ اس کے پلکیں فوراً بوجھل ہونے لگیں اور وہ چند منٹوں میں سوگیا۔
صبح ناشتے کے لیے وہ ڈائننگ ٹیبل کی کرسی پر مع اہل و عیال بیٹھا تھا۔ بازو میں اس کی بیوی۔ دائیں طرف پوتا۔ سامنے بیٹا اور بہو۔
ناشتے سے فارغ ہوکر چائے کی چسکیاں لیتے ہوئے اس کی بیوی بیٹے سے بولی’’بیٹا—رات تمہارے ابو کی حالت ویسی ہی ہوگئی تھی جیسی 1992ء کے بعد ہوئی تھی۔‘‘
بیٹا والد کے مزاج سے واقف تھا اس لیے سمجھ گیا۔ اس کی بھوئیں سکڑ گئیں۔ پیشانی پر شکن ہوگئی۔ ترش لہجے میں وہ بولا: ’’کیا ابو! آپ نہیں جانتے دنیا اتنی تبدیل ہوچکی ہے کہ لفظوں کے معنی تک بدل گئے ہیں۔‘‘
’’دیش بھگتی‘‘ سرکار کی چاپلوسی ہے۔
’’سیاست‘‘ مکروفریب کا گورکھ دھندا اور
’’امن‘‘ دو جنگوں کے درمیان کا وہ وقفہ جس میں تیسری جنگ کی تیاری کی جاتی ہے۔ ایسی دنیا میں کہاں آپ سارے جہاں کا درد اپنے سینے میں سمائے جی رہے ہیں۔
’’بیٹا—‘‘ وہ نہایت ٹھہرے ہوئے لہجے میں بولا ’’میں اس دادا کا پوتا ہوں جنھوں نے جنگ آزادی میں حصہ لیا تھا۔ وہ خون تو جوش مارے گا ہی نا!‘‘
’’……‘‘ بیٹا جواب میں کچھ نہ بولا۔
بیوی کہنے لگی’’میں کہتی ہوں ان کو اخبار نہیں پڑھنا چاہیے اور یہ جو آج کل ٹی وی پر الٹی سیدھی بکواس ڈیبٹ (Debate)چل رہی ہے نا وہ بھی دیکھنا بند کردینا چاہیے۔ تبھی یہ شانت رہ سکتے ہیں۔‘‘
پوتا اپنے ابا اور دادی کی باتیں سن کر ہنسا اور بولا: ’’ابو! ایک کام کرونا، دادا جان کی عینک چھین لو!‘‘
بہو، بیٹا اور بیوی اس کے پوتے کی بات سن کر مسکرانے لگے۔
اس نے عینک کی اوٹ سے اپنے بیٹے، بہو، بیوی اور پوتے کے مسکراتے چہرے دیکھے اور خود کلامی کرنے لگا۔ ’’جب میں چھوٹا تھا، میرے دادا جان جنگ آزادی کے قصے ابو کو سنایا کرتے تھے۔ میں خاموش سنا کرتا تھا۔ پھر دیش کی آزادی کے بعد کے حالات پر دادا جان نہایت افسوس کا اظہار کرنے لگے تھے۔ میرے ابا اثبات میں سر ہلاتے تھے۔ دادا جان کی افسردہ باتیں سن کر میں نے اپنے ابا جان سے یہ نہیں کہا تھا ’’دادا جان کی عینک چھین لو! سچ مچ دنیا کتنی بدل چکی ہے!‘‘ وہ چائے کی چسکی لے کر خود سے مخاطب تھا اورآج پہلی بار اسے گھر کی چائے بے مزہ لگ رہی تھی۔