ٹکرا دو عزائم کو طوفان کے دھاروں سے
منجدھار سے کشتی کو لے جاؤ کناروں سے
ڈرتے ہیں حوادث سے، ہمت جو نہیں رکھتے
سوکھے ہوئے پتے ہی، گرتے ہیں خیاروں سے
منزل سے بھٹکنے کاپایا ہے صلہ تم نے
گزرے تھے کبھی ہم بھی ان راہ گزاروں سے
نفرت کے شرارے جب گلشن کو جلا دیں گے
تب نکلیں گے شاید وہ خوابیدہ دھاروں سے
کلیوں کے چٹکنے پر ناراض صبا کیوں ہے
گلشن کے ہر اک گل کو شکوہ ہے بہاروں سے
بھٹکا کیے ہم تنہا آوارہ تخیل میں
برباد ہوا جیون گم راہ و چاروں سے
اے راز کبھی پتھر فریاد بھی سنتے ہیں
سر پھوڑ لیا تم نے ٹکرا کے مزاروں سے