چار سمتوں کا سفر زندگی کر آئے گی
اپنی دہلیز پہ ہر راہ گذر آئے گی
تیز قدموں سے تمازت نئی در آئے گی
دھوپ میں شکل ہماری بھی نکھر آئے گی
دن میں پھیلا ہے سیاہی کا سمندر ہر سو
روشنی شام ڈھلے گی تو نظر آئے گی
کوئی امید ہے شاداب سی سینے میں مرے
لگتا ہے آج تری خیر خبر آئے گی
اور کمرے کی سیاہی ابھی بڑھنے دے مرے
رات کے بعد امیدوں کی سحر آئے گی
شہر دھنباد میں منھ زور بنی پھرتی ہے
موت کو دیکھ سکو گے تو نظر آئے گی
رات بھر نیند کو ہم نے یوں تسلّی دی نثارؔ
صبح روٹھے ہوئے لوگوں کی خبر آئے گی