غزل

تہذیب ابرار، میوہ نوادہ، بجنور (یوپی)

سفر دارِ بقا کی سمت آساں کر کے چھوڑوں گا

میں خود کو دارِ فانی سے گریزاں کر کے چھوڑوں گا

مرے اجداد کے خون سے چراغاں تھا کبھی جس میں

میں اس ایوان ویراں شبستاں کر کے چھوڑوں گا

فزوں ہے سرکشی تیری بہت اے نفس امارہ

تجھے اک دن گور غریباں کر کے چھوڑوں گا

تمسخر جو اڑاتے ہیں ہماری نرم خوئی کا

انہیں خود اپنی ہی حالت پہ خنداں کر کے چھوڑوں گا

پیمبر کی بیاں کردہ صدائے حق طبیعت پر

گزرتی ہے گراں لیکن میں ارزاں کر کے چھوڑوں گا

علاوہ اس کے بھی اک بت بسائے رکھتا ہے خود میں

دل مشرک تری تجدید ایماں کر کے چھوڑوں گا

بتاؤ لگا میں رخ گرد اپنے بے یقین کی

جو لاامکاں ہے اب تک اس کو امکاں کر کے چھوڑوں گا

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں