کوئی ستارے کو مہتاب مانگے ہے
ہمارا دل تو تمہارا شباب مانگے ہے
ہمارے نام سے منسوب جو رہا برسوں
وہ ہم سے پیار کا کیسا حساب مانگے ہے
وہ روز آئینے کے سامنے کھڑے ہوکر
لگے ہے حسن کا اپنے جواب مانگے ہے
گھٹائیں زلفوں کی شانوں پہ میرے برسا دو
زمین دل کی محبت کا آب مانگے ہے
مہک گلابوں کی آتی ہے اس کے سانسوں سے
وہ خوشبوؤں میں رہا ہے گلاب مانگے ہے
نہ جانے کتنی ضرورت ہے روشنی کی اسے
فقیر دوستو اب آفتاب مانگے ہے
جلا دو ہر جگہ ناداںؔ چراغ الفت کے
زمانہ دیکھئے پر انقلاب مانگے ہے