غم کی حد سے جب گزر جاتا ہے دل
کیا بتاؤں جو مزا پاتا ہے دل
دوستوں سے جب یہ مل آتا ہے دل
کیوں یہ میرا بیٹھتا جاتا ہے دل
محفلوں سے کیوںیہ اکتاتا ہے دل
ہو جو تنہا، پھر سکوں پاتا ہے دل
خوف و اندیشے ہیں راہِ عقل میں
شوق کا رہ رو ہوا جاتا ہے دل
بے خودی کچھ حد سے بڑھ جاتی ہے جب
دے کے اک آواز چھپ جاتا ہے دل
کہتے ہیں ہوتی ہے دل کو دل سے رہ
ان کا شاید اس طرف آتا ہے دل
میں کہاں کہتا ہوں خالد یہ غزل
مجھ سے یہ خود ہی کہلواتا ہے دل