ایک مٹی کا دیا ہے آدمی
جل رہا ہے بجھ رہا ہے آدمی
عیش کا خوگر بنا ہے آدمی
راہ سے بھٹکا ہوا ہے آدمی
ہو اگر کردار اچھا دوستو
رفعتوں کو چومتا ہے آدمی
شرم آئے دیکھ کر شیطان کو
کام ایسا کر رہا ہے آدمی
چند سکوں اور شہرت کے لیے
انگلیوں پر ناچتا ہے آدمی
رشک کرتے ہیں زمین و آسماں
اوج پر اتنا گیا ہے آدمی
چھوڑ کر فرقانؔ احکامِ خدا
عیش و عشرت میں پڑا ہے آدمی