تھوڑا تھوڑا میں بھی کچھ بے باک ہوا
دھوکہ کھا کر میں بھی کچھ چالاک ہوا
ہفت فلک بھی مجھ کو بونے لگتے ہیں
جب سے اس کے قدموں کی میں خاک ہوا
ٹھوکر کھا کر میں نے چلنا سیکھ لیا
جینے کا پھر مجھ کو بھی ادراک ہوا
دنیا نے جب سارے سہارے چھین لیے
میرا سہارا میرا رب پاک ہوا
درد و الم کا ایک سمندر مجھ میں ہے
گویا بحرِ درد کا میں تیراک ہوا
اک انساں کی بس یہ حقیقت ہے تنویرؔ
خاک تھا وہ، پھر جسم بنا، پھر خاک ہوا