خوشبو، نسیم، چاندنی اختر تمہارا نام
ہونٹوں پہ میرے رہتا ہے اکثر تمہارا نام
ہوگا کسی کے واسطے خنجر تمہارا نام
میرے لیے ہے صرف گل تر تمہارا نام
تم سے چھٹا تو ایسا لگا خود سے چھٹ گیا
دل بر، دل و نظر ہے محور تمہارا نام
اصحاب طبل آتے تھے لشکر لیے ہوئے
لرزا سا طاری ہوگیا سن کر تمہارا نام
کتنوں کو عظمتوں سے سرفراز کر گیا
کتنوں کو کر گیا ہے سکندر تمہارا نام
تم سے کسی کو یوں تو تعلق نہیں کوئی
موضوع بحث بھی ہے برابر تمہارا نام
شاہا مجھے بھی جرأت و ہمت کی بھیک کچھ
پہنچانا چاہتا ہوں میں گھر گھر تمہارا نام
تابش مہدی