دردِ دل اچھا لگا دردِ جگر اچھا لگا
وہ تصور میں رہا تو رات بھر اچھا لگا
اُگ رہے تھے جس پہ یارو بغض و نفرت کے ثمر
شاخ وہ اچھی لگی نے وہ شجر اچھا لگا
شکریہ اے گردشِ ایام تیرا شکریہ
ساری دنیا میں تجھے میرا ہی گھر اچھا لگا
سلسلہ رنج و الم کا دے گیا تھا جو مجھے
مدتوں کے بعد اس کو دیکھ کر اچھا لگا
ہم جہاں بچھڑے تھے یارو ایک دوجے سے کبھی
وہ گلی اچھی لگی نے وہ نگر اچھا لگا
ساری دنیا چھوڑ دی فرقانؔ جس کے واسطے
زندگی کی راہ میں وہ ہم سفر اچھا لگا