استقبال کیا دیوانوں کا صحرا کے خاروں نے
تھے باہیں پھیلائے بگولے دیکھا سب نظاروں نے
اہل فن کا مول لگا کر جب دیکھا بازاروں نے
شوق سے اپنے آپ کو لاکر بیچ دیا فنکاروں نے
بپتائیں جب آپڑیں تو اپنے بھی یوں چھوڑ گئے
جیسے الجھی ناؤ بھنور میں چھوڑا ساتھ کناروں نے
ناری کی عصمت کا اب تو ہوتا ہے کھل کر اپمان
عورت کو بھی جنس نمائش سمجھا ہے بازاروں نے
جس گلشن میں انس و وفا کے ہم نے پھول کھلائے تھے
خاکستر کر ڈالا اس کو نفرت کے انگاروں نے
ساقی نے جھنجلا کر سارے پیمانوں کو توڑ دیا
میخانے میں دھوم مچائی جب سرکش میخاروں نے
نیند سے غفلت کی ہم جاگے رازؔکھلیں اس دم آنکھیں
لوٹ لیا جب اپنے گھر کو اپنا بن کر یاروں نے