خودی کو بیچ کر شہرت کمانا میں نہیں چاہتا
کسی قیمت پہ بھی عزت گنوانا میں نہیں چاہتا
لگے رہنے دو ہونٹوں پہ مرے آلام کے تالے
ہنسی لے کر کسی کی مسکرانا میں نہیں چاہتا
زمانے کے ستم نے مجھ کو پاگل کر دیا ورنہ
اذیت دینے کو پتھر اٹھانا میں نہیں چاہتا
ملے ہر چیز مجھ کو بس ترے محبوب کے صدقے
درِ اغیار پہ سر کو جھکانا میں نہیں چاہتا
مرے محسن میں تیرا ذکر صبح و شام کرتا ہوں
ترے احسان کو ہرگز بھلانا میں نہیں چاہتا
بھلا میں اختلافِ رائے کیوں اُن سے کروں اطہر
کبھی احباب کے دل کو دکھانا میں نہیں چاہتا