متاعِ دل لٹا کر سو رہا ہے
تری باتوں میں آکر سو رہا ہے
ہیں محو گفتگو فتنوں کے بانی
محبت کا پیمبر سو رہا ہے
مؤذن کی صدائیں گونجتی ہیں
مگر وہ ہے برابر سو رہا ہے
یہاں الٹا ہے، رہ رو جاگتے ہیں
مزے کی نیند رہبر سو رہا ہے
مری بستی میں ہر پتھر کے نیچے
لہو آمیز منظر سو رہا ہے
زمانے سے کہو کروٹ نہ بدلے
ذرا دم کو سخن ور سو رہا ہے
مرا اٹھنا ہے فائق اک قیامت
مری آنکھوں میں محشر سو رہا ہے