غزل

ابرار فائق

متاعِ دل لٹا کر سو رہا ہے

تری باتوں میں آکر سو رہا ہے

ہیں محو گفتگو فتنوں کے بانی

محبت کا پیمبر سو رہا ہے

مؤذن کی صدائیں گونجتی ہیں

مگر وہ ہے برابر سو رہا ہے

یہاں الٹا ہے، رہ رو جاگتے ہیں

مزے کی نیند رہبر سو رہا ہے

مری بستی میں ہر پتھر کے نیچے

لہو آمیز منظر سو رہا ہے

زمانے سے کہو کروٹ نہ بدلے

ذرا دم کو سخن ور سو رہا ہے

مرا اٹھنا ہے فائق اک قیامت

مری آنکھوں میں محشر سو رہا ہے

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں