کرتے نہیں نصیب کا شکوہ کسی سے ہم
محروم زندگی میں رہے ہر خوشی سے ہم
اچھا ہوا کہ ہم سے جدا آپ ہوگئے
آزاد ہوگئے ہیں غمِ زندگی سے ہم
پوچھا کیے ہیں لوگ مکرر وہی سوال
گزرے ہیں جب بھی دوستو اُن کی گلی سے ہم
اس کا اثر ہے، سر پہ مرے چڑھ گئے ہیں لوگ
آتے رہے جو پیش سدا عاجزی سے ہم
کیوں اعتماد ہم نے کیا آنکھ موند کر
کھائے ہوئے ہیں چوٹ تو اپنی کمی سے ہم