حسنِ معیار کی جو شہرت تھی
میرے افکار کی بدولت تھی
آرزوئیں تھیں تشنۂ تکمیل
زندگی مجھ پہ جیسے تہمت تھی
خون رونے کا تھا ہنر مجھ کو
مسکرانے کی اس کی عادت تھی
اپنی خاطر تھا میں ہی بے مصرف
اس کو میری بہت ضرورت تھی
شفقتِ مادری پہ نازاں تھا
اس کے قدموں کے نیچے جنت تھی
شیشۂ شب تھا اس کی آنکھوں میں
میں نے سمجھا کہ صاف نیت تھی
لوگ ملبے اٹھا رہے ہیں نثارؔ
اس جگہ لگتا ہے کوئی چھت تھی