پسِ سکوت، سخن کو خبر بنایا جائے
فصیلِ حرف میں معنی کا در بنایا جائے
حسابِ سود و زیاں ہوچکا بہت اب کے
وفورِ جذب کو عرضِ ہنر بنایا جائے
لگن اڑان کی دل میں ہنوز باقی ہے
کٹے پروں ہی کو اب شاہ پر بنایا جائے
ابھی تو آنکھ میں منزل کا کوئی خواب نہیں
ابھی سے کیا کوئی زادِ سفر بنایا جائے
فرازِ دار پہ کر کے بلند آخرِ شب
مرے ہی سر کو نشانِ سحر بنایا جائے
جمالِ دوست ہے مشعل ہمارے جادے کی
خیالِ دوست کو زادِ سفر بنایا جائے
بہت طویل ہوا سلسلہ رقابت کا
کبھی ملو تو اسے مختصر بنایا جائے
قدم قدم پہ ہے بستی میں وحشیوں کا ہجوم
چلو کہیں کسی صحرا میں گھر بنایا جائے
ہے خاک زادے کی مٹی بہت خراب اب کے
نئے خمیر سے تازہ بشر بنایا جائے
مفر ہے محبسِ جاں سے محال جب عرفاں
تو آؤ پھر اسی گنبد کو گھر بنایا جائے