کوتاہ قدوں سے ہاتھ ملاتے چلے گئے
قد گھٹ گیا تھا سربھی جھکاتے چلے گئے
پیکر حسین اُن کا غزل میں نہ لاسکے
لکھ لکھ کے بار بار مٹاتے چلے گئے
جل جل کے مر رہا ہے وہ بدلے کی آگ میں
جو کچھ ہوا وہ ہم تو بھلا تے چلے گئے
کڑوا کلام جب بھی قلم سے نکل گیا
میٹھا بنا کہ لہجہ سناتے چلے گئے
کیا کہہ رہے تھے؟کیا وہ کبھی پھر نہ آئیں گے
مہمان گھر سے ہاتھ ہلاتے چلے گئے
دولت نے بھائی بھائی کو دشمن بنا دیا
اک دوسرے کا خون بہاتے چلے گئے
معلوم تھا کہ ناگ کی فطرت ہے کیا ہمیں
پھر بھی ہم اُس کو دودھ پلاتے چلے گئے
دانش ؔ یہ اتفاق یوں ہر بار کیوں ہوا؟
جب بھی ملے نقاب اٹھاتے چلے گئے