اک درس زمانے سے مجھے یہ بھی ملا ہے
غیروں سے شکایت ہے نہ اپنوں سے گلا ہے
جب جب بھی ہوا چاک یہ دامانِ محبت
قربانی و ایثار کے جذبے سے سلا ہے
صد حیف کہ اب درپۂ آزار وہی ہے
کل تک جو مری فکر کی بانہوں میں پلا ہے
میں اپنی تباہی میں ہوں خود آپ ہی شامل
یہ سب کسی نااہل کی شفقت کا صلا ہے
میں دشت و بیاباں سے گزر آیا ہوں لیکن
تنہائی کا احساس مجھے گھر میں ہوا ہے
بسمل ذرا گل چیں سے یہ جا کر کوئی پوچھے
کس طرح سے کانٹوں میں کوئی پھول کھلا ہے