کوئی چراغ نہیں، گل نہیں، ستارہ نہیں
سوادِ جاں یہ کہیں زیست آشکارہ نہیں!
تو کیا میں اہل نہیں، دشت کی ریاضت کا
تو کیا جنوں کا کوئی مجھ میں استعارہ نہیں!
رواں ہے ہم میں رویوں کا ایک سرد بہاؤ
ہماری خاک میں اندیشہ شرارہ نہیں!
تو جن میں جھول رہا ہے، ہوس کی بانہیں ہیں
وفا کی دوڑ، محبت کا گوشوارہ نہیں!
تمہیں خیر ہے کہ جل اٹھتی ہے قبائے وجود
نہیں وہ خواب مری آنکھ، اب دوبارہ نہیں!
میں اپنی مرضی سے ایک لحظہ بھی گزار سکوں
حیات! اتنی بھی تجھ پر مرا اجارہ نہیں