عَنْ کَثِیْرِ بْنِ عُبَیْدٍ قَالَ کَانَتْ عَائِشَۃُ اِذَا وُلِدَ فِیْہِمْ مَوْلُوْدٌ یَعْنِیْ فِیْ اَہْلِہَا لاَ تَسْئَلُ غُلاَمًا وَلاَ جَارِیَۃً تَقُوْلُ خُلِقَ سَوِیًّا؟ فَاِذَا قِیْلَ نَعَمْ قَالَتْ اَلْحَمْدُ لِلّٰہِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَ
(الادب المفرد، باب من حمد اللہ عند الولادۃ اذا خلق سویا و لم یبال ذکرا و انثی، ص ۱۸۴)
کثیر بن عبید سے روایت ہے کہ جب حضرت عائشہؓ کے کنبہ میں کہیں بچہ پیدا ہوتا تو وہ یہ سوال نہیں کرتی تھیں کہ لڑکا ہے یا لڑکی؟ بلکہ آپ یہ پوچھتیں، کیا صحیح سالم پیدا ہوا ہے؟ جب آپ سے کہا جاتا ’’ہاں‘‘ تو آپ فرماتیں تمام حمد و ثنا جہانوں کے رب اللہ کے لیے ہے۔
توضیح: عام طو رپر ہر جگہ اور خصوصا عرب میں لڑکی کی پیدائش سے گھر والے انتہائی رنجیدہ ہو جایا کرتے تھے اور جب معلوم ہوتا کہ لڑکا پیدا ہوا ہے تو خوشی کے مارے پھولے نہ سماتے تھے۔ حضرت عائشہؓ نے غلط نظر و فکر کی اصلاح کی غرض سے اس موقع پر سوال کا انداز ہی بدل دیا، یعنی اصل سوال تو اس بات کا ہونا چاہیے کہ بچہ تندرست اور صحیح سالم بھی پیدا ہوا ہے یا نہیں، نہ کہ اس بات کی فکر کہ لڑکا پیدا ہوا ہے یا لڑکی۔
لڑکا ہو یا لڑکی دونوں خدا کی نعمت ہیں، ان دونوں میں سے کسی ایک کی پیدائش پر ناک بھوں چڑھانا کفرانِ نعمت (ناشکری) کے ہم معنی ہے، جس کی سزا خدا کے ہاں انتہائی سخت ہے۔
بچے کی پیدائش کے موقعے پر صرف الحمد للہ کے بجائے الحمد للہ رب العالمین کہنے میں بظاہر اس طرف اشارہ معلوم ہوتا ہے کہ لڑکی کی پیدائش پر بالعموم اس بنا پر غم و غصہ کا اظہا رکیا جاتا ہے کہ اسے کہاں سے کھلائیں گے۔ حالاں کہ لڑکا ہو یا لڑکی سب کا رازق اللہ تعالیٰ ہے جس کا نمایاں وصف رب العالمین ہے۔