غم اور انسانی زندگی

افشاں نوید

ہم اسپتال کی چھٹی منزل پر آئی سی یو کے باہر بچھی بینچوں پر باری کے انتظار میں بیٹھ گئے کہ کب ہم اپنے مریض کی عیادت کرسکیں گے۔ اچانک دروازہ کھلتا اور گارڈ باری باری سب کو اندربلاتا جاتا۔ پھر دروازہ بند ہوجاتا اور سب کی نظریں دروازے پر ٹک جاتیں۔ کچھ آئی سی یو سے باہر تھکے قدموں اور پژمردہ چہروں سے واپس آتے، کچھ نسبتاً پرسکون۔ فضا پر بھی ایک عجیب خوف اور وحشت طاری ہے۔ جتنا سناٹا باہر ہے اس سے زیادہ اندر، یا شاید اندر طوفان بپا ہوں۔ اور تسبیح پر تیز تیز چلتی انگلیوں کی حرکت اور آنچل کو بار بار سر پر ٹکانے کی کوشش۔ انتہائی دائیں جانب وہ خاتون مسلسل تلاوتِ کلام پاک میں مصروف ہیں، تھوڑی تھوڑی دیر میں چشمہ اتار کر ٹشو پیپر آنکھوں تک لے جاتی ہیں تو لگتا ہے کہ کس مشکل سے اپنے کرب کو چھپایا ہوا ہے انھوں نے ۔ ان دکھے دلوں کی اس وقت جو کیفیت ہے، اضطراب کی جن منزلوں میں ہیں، امید اور یقین کا جو مفہوم اس وقت ان پر آشکارا ہوا ہے وہ یہی بتاسکتے ہیں۔ بائیں جانب بیٹھی وہ لڑکی جو طالبہ لگتی تھی وظائف کی کتاب کے ورق جلدی جلدی پلٹ رہی تھی۔ بار بار دوپٹے کے پلو سے آنکھیں رگڑ رگڑ کر اس کا چہرہ سرخ ہوگیا تھا۔ جی چاہا اس کے پاس جاکر شانے پر ہاتھ رکھ کر پوچھوں کہ تمہارا کون ہے وارڈ میں؟ لیکن ہمت نہ ہوئی، کیوں کہ ان بینچوں پر بیٹھے لوگ اپنے اطراف سے نسبتاً بے نیاز ہیں، ان کی لَو تو اس وقت کہیں اورلگی ہوئی ہے، رجوع اور معرفت کے کن درجوں سے گزر رہے ہیں۔ جتنے سینے ہیں اتنی داستانیں اور آنسو زبانِ حال سے وہ داستانیں بیان کررہے ہیں۔ بھیگی آنکھیں سب کچھ الم نشرح کررہی ہیں۔ کھڑکی کے باہر مین روڈ پر آتی جاتی تیز رفتار گاڑیاں، فلک بوس شاپنگ پلازہ، پٹرول پمپ پر لگی گاڑیوں کی لمبی قطاریں، بالکل برابر میں کے ایف سی جہاں خراماں خراماں داخل ہوتے جوڑے اور خوش باش ہنسی مذاق کرتے خاندان جو گاڑیوں میں بیٹھ رہے ہیں یا گاڑیوں سے نکل کر کھانوں کی اشتہا میں تیز تیز سیڑھیاں عبور کرتے اس مہنگے ریستوران میں داخل ہورہے ہیں۔ ان سب کے درمیان یہ شہر کا مہنگا اسپتال جہاں ہماری قریبی ساتھی آئی سی یو میں ہیں۔ کھڑکی کے باہر کی ہنگامہ خیز زندگی دیکھتے دیکھتے میں سوچنے لگی کہ بس ذرا سا تو فاصلہ ہے یہاں سے وہاں تک ۔ میرے ساتھ والی اپنی برابر والی کو بتانے لگیں کہ صبح سے اتنی ڈیڈباڈیز جاچکی ہیں یہاں سے۔ اور جو ہیں وہ موت اور زندگی کے بیچ ایک نازک سی سرحد ہے۔ ایک باریک سا دھاگا جس کے ایک طرف موت اور دوسری طرف زندگی۔ ہاں وہ زندگی جو اس کھڑکی سے باہر ہے کتنی رواں دواں ہے، کتنی برق رفتار ہے۔ بس ایک جھٹکا… آہ۔ صر ف ایک لمحہ کسی کو بھی ان چار دیواریوں سے اس چاردیواری میں منتقل کرسکتا ہے۔ پھر آہیں، آنسو، تسبیح، تلاوت، ورد، وظائف جو اسی چار دیواری کا خاصا ہیں۔ رجوع کی یہ کیفیت طاری ہی ہوجائے، مستقل ہوجائے تو فرشتے راستوں میں مصافحے کو نہ اترنے لگیں بھلا؟
سوچوں کا یہ سلسلہ ایک جھٹکے سے ٹوٹ گیا۔ نیچے کی منزل سے رونے کی بلند آواز کے آنے کی وجہ سے خاموش فضا میں ایک زبردست ارتعاش پیدا ہوا۔ کسی نوجوان کے بہت زور زور سے رونے کی آواز نے ہر ایک کو مغموم کردیا۔ یوں لگا نچلی منزل پر کوئی رو رہا ہے۔ میں نے زینہ اتر کر دیکھا تو کوئی نہ تھا۔ شاید گراؤنڈ فلور پر کوئی اس قدر بلند آواز سے رو رہا تھا کہ اوپر تک اس کی چیخیں سنی جارہی تھیں۔ اس کا کوئی پیارا رخصت ہوگیا تھا، اسے یوں بے کل، تنہا اور مضطرب چھوڑ کر۔ ایک منٹ کے کچھ حصے میں وہ دل خراش آوازیں سماعتوں سے ٹکرائیں، پھر وہی خاموشی۔ لیکن وہ آوازیں تو دل اور دماغ میں بس گئیں اور غم و اندوہ کی بے کیفی طاری ہوگئی۔
ہر انسان کو یقینا اپنی زندگی میں کبھی نہ کبھی ان لمحات سے ضرور گزرنا پڑتا ہے جب وہ خود کو انتہائی دل شکستہ، مایوس اور تنہا محسوس کرتا ہے اور غالباً یہی کیفیات معمول کا حصہ بن کر ڈپریشن میں مبتلا کردیتی ہیں۔ اس نوجوان کی چیخوں کو سن کر میں سوچنے لگی کہ ہر انسان میں غم کو سہنے کی استطاعت کتنی مختلف ہوتی ہے اور بعض اوقات یہی غم وحادثات زندگی میں کسی انقلاب اور غیر معمولی تبدیلی کا باعث بن جاتے ہیں۔ میری قریبی عزیزہ شیر خوار بیٹے کی وفات کے بعد جس طرح دین کی طرف پلٹیں اس نے سب کو حیرت زدہ کردیا۔ غم کی یہ کیفیات کبھی کبھی ہماری قوت بن جاتی ہیں۔ صدمے کی یہ کیفیت جس کا ابھی ہم نے مشاہدہ کیا تھا، درحقیقت اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ ہم دنیا کو دارالامتحان نہیں سمجھتے اور دنیا کی زندگی ہی کو اپنی اصل پونجی سمجھنے لگتے ہیں۔ جب کہ زندگی عطا کرنے والا زندگی کی حقیقت کو بھی خوب کھول کر بیان کرتا ہے کہ ’’خوب جان لو کہ یہ دنیا کی زندگی اس کے سوا کچھ نہیں کہ ایک کھیل کود اور دل لگی اور ظاہری ٹپ ٹاپ، اور تمہارا آپس میں ایک دوسرے پر فخر جتانا و مال اور اولاد میں ایک دوسرے سے بڑھ جانے کی کوشش کرنا۔‘‘ (الحدید) اللہ تعالیٰ کے نزدیک اس درجہ دل شکستگی پسندیدہ رویہ نہیں ہے۔ اور رہی موت تو وہ اٹل حقیقت ہے جس کا متعین وقت رب العالمین نے اسی لیے مخفی رکھا کہ ہم اس کی تیاری سے بے نیاز نہ ہوجائیں۔ اللہ کی رضا پر راضی رہنے والے مصیبت کے وقت کو بھی اس کی رضا کا ذریعہ بنالیتے ہیں۔
’’آنکھیں آنسو بہاتی ہیں، دل غمگین ہے مگر ہم صرف وہی زبان سے کہتے ہیں جس کو ہمارا پروردگار پسند کرتا ہے اور اے ابراہیم! ہمیں تیری جدائی کا بہت غم ہے۔ رحمتِ عالم ﷺ نے اپنے بیٹے حضرت ابراہیمؓ کی جدائی کے وقت یہ الفاظ کہے جو بندگی کی عظیم شان لیے ہوئے ہیں اور رضا کی کیفیت کے عکاس ہیں کہ بندئہ مومن کا کرب، قربِ الٰہی میں ڈھل جاتا ہے۔ دراصل جب انسان اپنی حکمت اور تدبیر پر بھروسہ کرتا ہے تو اس کی مصیبتیں اس کو توڑ کر رکھ دیتی ہیں۔ حضرت ابوہریرہؓ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: ’’اگر تمہیں کوئی تکلیف، مصیبت پیش آئے تو یہ نہ کہو کہ اگر میں ایسا کرتا تو یوں ہوجاتا، بلکہ یہ کہا کرو کہ اللہ نے ہر چیز کو مقدر کردیا ہے، جو اس نے چاہا وہ کرڈالا اس لیے کہ لَو (اگر) شیطان کے عمل کا دروازہ کھول دیتا ہے۔‘‘ (مشکوٰۃ شریف)
ایک خاتون اپنے نوجوان بیٹے کی موت پر گریہ کرتے ہوئے کہہ رہی تھیں کہ ’’مجھ سے میرا بیٹا لے کر اللہ کو کیا ملا؟‘‘ یہ سوال بجائے خود اپنے اندر ایک سوال رکھتا ہے کہ ہم اپنی عقل اور سمجھ کو انتہا سمجھتے ہیں۔ یہ حقیقت ہے کہ ہم کمزور ہیں اور تکلیف، مصیبت اور رنج و حزن سے بچنا چاہتے ہیں، اور بسا اوقات آزمائش بہت کٹھن ہوتی ہے، لیکن اللہ کی حکمت و مشیت ہماری سوچ اور عقل کے دائروں سے بہت وسیع ہے۔ سوال تو یہ ہے کہ جو خوشیاں اورغم اللہ نے ہمیں عطا کیے ہیں ان سے ہمیں کیا ملا؟ اگر ہماری سوچ کا رخ یہ ہو کہ ہم مسافر ہیں اور حالتِ سفر میں ہیں اور دنیا میں انتہائی نشاط اور سرور ہمارا منتہی نہیں ہے بلکہ یہاں کی آزمائشیں اور ان آزمائشوں سے کامیابی سے گزرنا آخرت میں ہمارے مقام اور مرتبہ کا تعین کرے گا۔ بہرحال آزمائشوں کی تمنا بھی نہیں کرنی چاہیے اور اللہ سے ہر حال میں عافیت ہی طلب کرنی چاہیے، اور اللہ کے نبی علیہ الصلوٰۃ و السلام نے پسندیدہ دعا ہی یہ بتائی ہے کہ انسان اپنے رب سے عافیتوں کا طالب رہے کیوں کہ بسا اوقات آزمائشیں ایمان کو بھی خطرے میں ڈالنے اور شیطان کو کارگزاری دکھانے کا موقع فراہم کردیتی ہیں۔ بہرحال دنیاوی زندگی کی خوشیاں اور غم کوئی بھی دائمی نہیںہے، مسلسل نہیں ہے، بلکہ ہر دو صورتوں میں خیر کا ہی سبب بنتے ہیں۔ حدیث پاک ہے کہ ’’مسلمان کو جو رنج، دکھ، غم، تکلیف اور پریشانی آتی ہے، حتیٰ کہ اگر اس کا کو ایک کانٹا بھی چبھتا ہے تو اللہ تعالیٰ اس کو اس کی کسی نہ کسی خطا کا کفارہ بنادیتا ہے۔‘‘ (بخاری و مسلم)
سچ تو یہ ہے کہ غم ایک حقیقت ہے اور اس کے بغیر زندگی نامکمل۔ اور اگر شعوری طور پر ہم غموں کو اپنالیں تو ہماری دنیا و عقبیٰ دونوں سدھر سکتی ہیں، کچھ بڑے غم اپنا کر چھوٹے غموں سے ہم بڑی حد تک بے نیاز ہوسکتے ہیں۔ قرآن اس غم کی کس طرح نشاندہی کرتا ہے کہ ’’شاید تم ان کے پیچھے رنج و غم میں اپنے آپ کو ہی ہلاک کرلو گے اگر یہ لوگ اس کلامِ ہدایت پر ایمان نہ لائیں۔‘‘ (الکہف) یہ دنیا کا عظیم ترین غم ہے جو عظیم ترین لوگوں کے حصے میں آتا ہے۔ سوچیں تو بھلا اس سے بڑا بھی کوئی غم ہوسکتا ہے کہ انسانیت ہلاکت کے گڑھے کی طرف بڑھ رہی ہے، طاقتور کمزوروں سے جینے کا حق چھین رہے ہیں، مظلوم کی آہ کو سننے والا کوئی نہیں۔
کاش کہ ہمارے دل میں اپنے اور اپنے عزیز و اقارب کے غم اورفکر کے ساتھ ساتھ عام انسانوں اور امتِ مسلمہ اور اللہ کے دین کا غم کسی تناسب سے شامل ہوجائے۔ یہ غم وہ غم ہے کہ عزیز و اقارب کا غم زندگی کو بے چین کرتا ہے اور انسانوں کا غم زندگی کو سکون فراہم کرتا ہے اور حقیقت میں یہی غم دنیا و آخرت کی کامیابی کا بھی ضامن ہے۔
——

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

درج بالا کیو آر کوڈ کو کسی بھی یو پی آئی ایپ سے اسکین کرکے حجاب اسلامی کو عطیہ دیجیے۔ رسید حاصل کرنے کے لیے، ادائیگی کے بعد پیمنٹ کا اسکرین شاٹ نیچے دیے گئے  وہاٹس ایپ پر بھیجیے۔ خریدار حضرات بھی اسی طریقے کا استعمال کرتے ہوئے سالانہ زرِ تعاون مبلغ 600 روپے ادا کرسکتے ہیں۔ اس صورت میں پیمنٹ کا اسکرین شاٹ اور اپنا پورا پتہ انگریزی میں لکھ کر بذریعہ وہاٹس ایپ ہمیں بھیجیے۔

Whatsapp: 9810957146