غم اور زندگی

فرحت الفیہ جالنہ

وہ ریلوےپلیٹ فام پر بیٹھا خیالوں میں گم تھا۔ ماتھےپر پسینہ اوردماغ میں دنیاجہان کی فکریں سمائی ہوئی تھیں بالوں میں گزرتےوقت کےساتھ سفیدی در آئی تھی۔ اڑتالیس کی عمرمیں وہ اٹھاون کا لگنے لگا تھا۔کبھی وہ نشست سےاٹھ کراضطرابی کیفیت میں اِدھر اُدھرٹہلنےلگتا،کبھی پتھرکی بینچ پردوبارہ بیٹھ جاتا، رشیدہ کی آوازمسلسل اس کےکانوں میں گونج رہی تھی۔

’’میری بیٹیاں شادی میں کیا وہی پرانے کپڑے پہنیں گی؟چارلوگ دیکھتےہیں جوان لڑکی کوشادی میں، سارےلوگ اپنی بیٹیوں کوسجاسنوارکر لے جاتےہیں۔ میمونہ کی بیٹی کارشتہ بھی ایسےہی ہوا تھا۔ ایک بارپڑوس کی شادی میں لڑکی پرنظرپڑی اور بات پکی ہوگئی۔ سترہ کی ہوگئی ہےنگار، دوتین سال ایسےہی رشتے کے انتظار میں گزرجائیں گے، تم کچھ مت کرو، بس ایک ہی دھندے کو پکڑ کر بیٹھے رہو، شاکرہ کے شوہر کو دیکھو، کیا سے کیا ہوگیا ہے۔کیسےدن بدل گئے ہیں۔ چھوٹی سی، پٹری (دکان) سے اتنا بڑا اسٹور کھڑا کردیا ہے اس نے۔ بہن کی شادی دھوم دھام سے کررہا ہے۔ ایسے ہوتےہیں محنتی آدمی! میری توقسمت ہی خراب ہے۔‘‘

گویارشیدہ کی باتیں ہواکےتوسط سےابھی بھی اس کے کانوں سےٹکرارہی تھیں۔کبھی وہ ادھرادھردیکھنےلگتا، جیسےکسی کی آمدکامنتظرہو، توکبھی اپنےسینےمیں اٹھنے والےدردکوانگوٹھےسےسہلانےلگتا۔

یوں تووہ اپنے گھر والوں کی ضروریات کے لیے ہمیشہ ہی فکرمند رہتاتھا مگر پچھلے ایک ہفتےسےکچھ زیادہ ہی پریشان رہنےلگا تھا۔ جب سےاس نےرشیدہ کی زبان سےسناتھاکہ نگارسترہ سال کی ہوگئی ہے، اسے عجیب سی فکر لاحق ہوگئی تھی۔اس کے ذہن کے ایک گوشےمیںخیالات کاطوفان برپا ہوگیا تھا۔ کتنے جلدی وقت گزرگیا،ابھی انیس سال پہلےہی تواس کی شادی ہوئی تھی۔ نئی نویلی دلہن بنی رشیدہ کادھندلاساعکس اس کےذہن کےدریچوں میں فلم کی طرح دکھائی دے رہا تھا۔پھرنگارپیداہوئی، ننھی سی بچی کی شکل اب اس کےخیال میں گردش کرنےلگی تھی۔ پھر شہوار اور بہار (دو جوڑواں بیٹیاں) خیر!یہ دونوں تو ابھی چھوٹی ہیں۔ اس نے گہری سانس لی۔ سینے کے درد میں مزیداضافہ ہوگیا تھا۔ ایک ہفتےسےرہ رہ کر سینے میں دردکی ٹیس اٹھ رہی تھی مگروہ مسلسل نظرانداز کیے جارہا تھا۔آج یہ درد ذرا زیادہ محسوس ہونے لگا تھا۔ ایک مہینے پہلے ایک سڑک کی مرمت کاکام اسے ملاتھا۔ مگردن بھرکام کےباوجودبھی مناسب مزدوری نہیں مل رہی تھی۔ آج سنجو کےکہنےپر یہاں آیاتھا۔اس آس پرکہ یہاں دوگنی مزدوری ملنےوالی تھی۔پچھلےایک گھنٹے سے وہ اسی شخص کےانتظار میں بیٹھاتھا۔ دور سے جب اسے سنجو آتا دکھائی دیاتو وہ اٹھ کر اس کےقریب پہنج گیا۔وہ شخص اسے ریلوے گودام کی جانب لےگیا۔جہاں کچھ مزدور مال گاڑی سےسمنٹ کی بھاری بھرکم بوریاں اتار کر دوسری جانب بنے میدان میں پہنچارہے تھے۔ سارا نظارہ دیکھنے کے بعد اسےاندازہ ہوگیاتھاکہ اسےکیا کرنا ہے۔محنت کش توپہلےہی سےتھا۔اس لیے دوسرےمزدوروں کی طرح مال گاڑی کےاندرچلاگیا، سنجونام کاشخص ہاتھوں میں پین اور رجسٹر لیےہوئےپاس ہی پتھرکی بنی بینچپر برجمان ہوگیا۔کچھ دیربعدوہ اپنی پیٹھ پرسمنٹ کی بوری لادے گاڑی پرلگی عارضی لکڑی کی پٹری (جوپلیٹ فام اور مال گاڑی کےبیچ پل کاکام کر رہی تھی۔) سےنکلتاہوادکھائی دیا اس کےچہرے پر درد کے آثار نمایاں تھے۔پیٹھ پر لدی بوری کواس نے سمنٹ کی ترتیب سےرکھی دوسری بوریوں پربےساختہ پٹخنے والےاندازمیں رکھ دیا۔ سینے کا دردمیں مزیداضافہ ہوگیاتھا۔ وہ گاڑی کےاندردوبارہ داخل ہوگیا اور دوسری بوری بمشکل پیٹھ پر لادنے لگا۔ اس باراس کی سانس اکھڑنےلگی، آنکھوں کے سامنے اندھیرا چھا گیا اور دردکی شدت میں اضافہ ہوگیا۔وہ مال گاڑی کی اندھیری بوگی میں گرگیا۔کچھ حمال اسے اٹھا کر گاڑی سے باہر لے آئے،اسےنیچےلٹاکر ادھر ادھر دوڑنے لگے۔ سنجو برق رفتاری سےدوڑتا ہوا اس کےقریب پہنچ کر اس کی ہتھیلیاں زور زور سے رگڑنے لگا۔ ایک شخص اس کےسفیدبوسیدہ جوتےکےتسمےکھول کر ایڑھیوں پر اپنے ہاتھوں سے زور زورسے مالش کرنے لگا۔آس پاس کےکیبن سےکچھ افسران شور ہنگامے کی آوازسن کر وہاں چلےآئےتھے۔دورسےاس کے ٹھنڈے اور بے حس وحرکت جسم پرایک نگاہ ڈالتے، اورآگےبڑھ جاتے۔اس کاجسم ٹھنڈا ہوچکا تھا۔ ضرروتوں، ذمہ داریوں اورکبھی نہ پوری ہونےوالی خواہشوں کے پہاڑ کو سر کرتےکرتےاب وہ ریلوے کے گودام کےایک کونے میں محض ایک ٹھنڈاوجودبن کے پڑا تھا۔ ساری فکروں اورغموں سےآزاد۔۔۔اب نہ اسےجوان بیٹی کی شادی کی فکرلاحق تھی اور نہ اپنوں کی ضرورت پوری نہ کرپانےکاغم۔ ہوا میں سمنٹ کی گرد اڑ کر اس کےجسم پرپڑرہی تھی۔مکھیاں اس کے ادھ کھلےہونٹوں پرمنڈلانے لگی تھیں۔ہوامیں اب تیزی آگئی تھی، گویا وہ شکوہ کناں ہو۔

تو قادر و عادل ہے مگرتیرےجہاں میں

ہیں تلخ بہت بندۂ مزدور کے اوقات !

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں