آپ کے مکتوب گرامی میں غصہ کی طلاق اور طلاق بدعی کے حوالہ سے سماج کی جس عمومی صورتحال ،اور پھر اس کے نتیجہ میں خاندانوں کے ٹوٹنے اوربچوں کی زندگی خراب ہونے وغیرہ کاجو ذکر کیا گیا ہے ،اس کے تعلق سے ہمارا فیصلہ مندرجہ ذیل ہے:
غصہ کی طلاق کے سلسلہ میں رائے یہ ہے کہ اگر وہ ایسے شدید غصہ کی حالت میں دی جائے کہ طلاق دینے والے کو اپنے افعال کا ذرا بھی احساس نہ رہے تو فقہاء کا اجماع ہے کہ ایسی طلاق واقع نہیں ہوگی۔
جہاں تک اس شخص کاتعلق ہے جو غصہ میں ہونے کے باوجوداپنے بعض افعال کوسمجھ سکتا ہوتو ایسے شخص کی طلاق واقع ہونے یا نہ ہونے میں اختلاف ہے،لیکن خاندانوں کے شیرازہ کو ٹوٹنے سے بچانے اور گھروں کے اتحاد کی حفاظت کے پیش نظر ہم ایسی طلاق کے واقع نہ ہونے کو راجح قرار دیتے ہیں،چونکہ جب انسان کا غصہ شدید ہوجاتا ہے تو اسے اپنے آپ پر کنٹرول نہیں رہتا، اس لئے کہ غصہ کی شدت کی وجہ سے وہ ایسے الفاظ بولنے پر مجبور ہوجاتا ہے کہ وہ ان کے ذریعہ اپنے سے ملحق چیز کو ہٹاتا ہے اور غصہ کو ان کے ذریعہ دفع کرتا ہے؛ چنانچہ وہ مکرہ کے حکم میں ہوا،امام ابن قیم ؒ نے اسی رائے کو اختیار کیا ہے ،غصہ کی طلاق کوانہوں نے اس حالت میں (یعنی غصہ کی درمیانی حالت جس میں فقہاء کا اختلاف ہے) زبردستی کی طلاق(طلاق مکرہ) کے مثل مانا ہے، اور اللہ تبارک وتعالیٰ مکرہ (یعنی ایسا شخص جس سے زبردستی کوئی کام کروا لیا گیا ہو)سے درگزر فرمادیتا ہے، آنحضرت ﷺکا ارشاد مبارک ہے: رفع عن أمتی الخطأ والنسیان وما استکرہوا علیہ یعنی (اللہ تعالیٰ نے میری امت سے ان چیزوں کو معاف کردیا ہے: غلطی، بھول چوک اور وہ کام جو زبردستی کروایا گیا ہو)۔ (ابن ماجہ: باب طلاق المکرہ والناسی)
جہاں تک طلاق بدعی کا تعلق ہے تو یہ وہ طلاق ہے جو حیض ونفاس یعنی طہرکے علاوہ مدت میں دی جائے، اسی وجہ سے جو شخص اپنی بیوی کو طلاق بدعی دے دے تو اسے رجوع کرنے کا حکم دیا جائے گا،اگر وہ نہ مانے تو اسے مجبور کیا جائے گا،علماء نے یہاں تک کہا ہے کہ:اگر وہ خود رجوع کرنے پر رضامند نہ ہوتو قاضی رجوع کرانے کا ذمہ دار ہوگا،پھر اس کے بعد شوہر کو اختیار ہوگا کہ جب تک چاہے اسے بیوی بناکے رکھے ،اور اگر دوبارہ اسے طلاق دینا چاہتا ہو تو چاہئے کہ مدت طہر میں طلاق دے۔
اس مسئلہ کی دلیل وہ حدیث پاک ہے جس کو امام بخاریؒ نے اپنی صحیح میں نقل کیا ہے:حضرت عبداللہ ابن عمر ؓسے مروی ہے کہ انہوں نے حضور اکرمﷺ کے عہد میں اپنی بیو ی کو حالت حیض میں طلاق دے دی، تو حضرت عمرابن الخطابؓنے حضورﷺ سے اس کے بارے میں دریافت کیا،توآپﷺ نے ارشاد فرمایا: ’’اس کو حکم دو کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے،پھراس کو (اپنے نکاح میں) اس وقت تک روکے رکھے جب تک کہ پاک نہ ہوجائے، اس کے بعدپھر حیض آئے اور پھر پاک ہوجائے، اب اگر چاہے تواسے (اپنے نکا ح میں) باقی رکھے،یا اگر چاہے تومجامعت سے پہلے طلاق دیدے، یہی صحیح عدت ہے جس کے مطابق اللہ نے عورتوں کو طلاق دینے کاحکم فرمایا ہے)۔
اسی طرح طلا ق بدعی یہ ہے کہ عورت کو تین طلاق ایک ہی جملہ میں یکبارگی دے دی جائے یا ایک مجلس میں تین طلاقیں علیحدہ علیحدہ دی جائیں، مثلاً یوں کہے: تمھیں طلاق ہے،تمھیں طلاق ہے،تمھیں طلاق ہے، یا حیض اور نفاس کی مدت کے دوران یا ایسے طہر میں طلاق دے جس میں کہ اس سے جماع کیا تھا، اور علماء اس بات پر متفق ہیں کہ طلاق بدعی حرام ہے اور ایسا کرنے والا گنہگار ہوگا۔
جب کہ بعض علماء کی رائے ہے کہ طلاق بدعی پڑتی ہی نہیں اور اس کو عمومیات میں سے نہیں مانا ہے،چوں کہ یہ وہ طلاق نہیں ہے جس کی اللہ تعالیٰ نے اجازت دی ہے، بلکہ یہ تو اللہ کے حکم کے خلاف ہے،چناںچہ اللہ کا ارشادہے: ’’فطلقوہن لعدتہن‘‘ (اپنی بیویوں کو عدت کے لئے طلا ق دیا کرو) (الطلاق:۱)، اور حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت ابن عمر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے سلسلہ میں فرمایا تھا کہ: ’’اسے حکم دو کہ اپنی بیوی سے رجوع کرلے‘‘، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس پر ناراضگی کا اظہار فرمایا تھا،اورحضور صلی اللہ علیہ وسلم کبھی ایسی چیز سے ناراض نہیں ہوتے تھے جس کو اللہ نے حلال کیا ہو۔
جامع الرسائل میں امام ابن تیمیہؒ رقم طراز ہیں: ’’ان تمام باتوں سے یہ حقیقت واضح ہوجاتی ہے کہ طلاق بدعی کے عدم وقوع والی رائے ہی زیادہ راجح ہے، اور اسی پر کتاب وسنت بھی دلالت کرتے ہیں،اور وہ شریعت کے مقاصد سے بھی ہم آہنگ ہے،اور اسی کے ذریعہ دھوکہ دہی،مکروفریب اورایذا رسانی کا سد باب ہوسکتاہے کہ طلاق سنت کا حکم دینے اور طلاق کو تین پر محدود کرنے میں اللہ تبارک وتعالیٰ کی یہی منشا مضمر ہے، ورنہ اگر طلاق بدعی کے وقوع کو تسلیم کرلیا جائے تو زمانۂ جاہلیت میں جو نقصان تھا وہ اس طور پر جوں کا توں باقی رہے گا، تو اگر کہا جائے کہ طہر کے بعد طلاق لازم ہے تو ایسی صورت میں عورت کے لئے ممکن ہوجائے گا کہ اگر اس کو مرد میں دلچسپی نہ ہو تو وہ حمل کو چھپالے تاکہ وہ اس سے رجوع نہ کرسکے، یااگر مرد میں دلچسپی رکھتی ہو تو حیض کو چھپالے اور حمل کا دعوی کردے تاکہ شوہر اس سے رجوع کرسکے۔
جہاں تک مدت حیض میں طلاق دینے کا مسئلہ ہے تو امت اس بات پر متفق ہے کہ ایسا کرنے والا بدعتی اور اللہ کی نافرمانی کرنے والا ہے،اسی طرح اگر کوئی شخص اپنی بیوی کو جماع کے بعد حمل ظاہر ہوجانے سے پہلے طلاق دے تو یہ بھی طلاق بدعی ہے،اسی طرح اگر وہ ایک ہی جملہ میں یکبارگی یا ایک طہر میں علیحدہ علیحدہ طور پر تین طلاقیں دے تو وہ متقدمین ومتاخرین جمہور علماء کے نزدیک عمل بدعت کا مرتکب اور اللہ کانافرمان قرار پائے گا، یہی مسلک ہے امام مالکؒاورامام ابوحنیفہ رحمۃ اللہ علیہ کا،اور مشہور قول کے مطابق امام احمد ؒکا بھی یہی مسلک ہے،بلکہ اگر وہ ایک طلاق دے پھر اس کے بعد عدت مکمل ہونے سے پہلے دوطلاقیں اور دے دے تو وہ امام مالکؒ کے مسلک میں اور امام احمدؒ کے مشہور قول کے مطابق عمل بدعت کا مرتکب شمارکیاجائے گا۔
قرآن وسنت اس بات پر دلالت کرتے ہیں کہ اللہ تعالیٰ نے آدمی کے لئے صرف ایک طلاق دینے کو حلال قرار دیا ہے، تو اگر وہ بیوی سے رجوع کرلے اور پھر دوسری طلاق دینا چاہے تو اس کو اس کا اختیار ہے،اسی طرح تیسری طلاق کا بھی معاملہ ہے،اللہ رب العزت ارشاد فرماتا ہے:
’’اے نبی! جب تم عورتوں کو طلاق دو تو انہیں ان کی عدت کے لئے طلاق دیا کرواور عدت کے زمانے کا ٹھیک ٹھیک شمار کرو، اور اللہ سے ڈروجو تمہارا رب ہے، (زمانۂ عدت) میں نہ تم انہیں ان کے گھروں سے نکالو اور نہ وہ خود نکلیں، الا یہ کہ وہ کسی صریح برائی کی مرتکب ہوں، یہ اللہ کی مقرر کردہ حدیں ہیں،اور جو کوئی اللہ کی حدوں سے تجاوز کرے گاوہ اپنے اوپر خودظلم کرے گا،تم نہیں جانتے شاید اس کے بعد اللہ(موافقت کی)کوئی صورت پیدا کردے۔ (۱)پھر جب وہ اپنی (عدت کی) مدت کے خاتمہ پرپہنچیںتو یا انہیں بھلے طریقہ سے(اپنے نکاح میں) روک رکھو، یابھلے طریقہ پر ان سے جدا ہوجائو اور دوایسے آدمیوں کو گواہ بنالو جوتم میں سے صاحب عدل ہوں اور(اے گواہ بننے والو)گواہی ٹھیک ٹھیک اللہ کے لئے ادا کرو،یہ باتیں ہیں جن کی تم لوگوں کو نصیحت کی جاتی ہے، ہر اس شخص کوجو اللہ اور آخرت کے دن پر ایمان رکھتا ہو،جو کوئی اللہ سے ڈرتے ہوئے کام کرے گااللہ اس کے لئے مشکلات سے نکلنے کا کوئی راستہ پیدا کردے گا۔‘‘ (الطلاق:۱،۲)
یہ تو اس شخص کے لئے ہے جو تین سے کم طلاق دے،پھر یاتو خوش اسلوبی سے بیوی کو اپنے نکاح میں باقی رکھے یا تو سلیقہ کے ساتھ اس سے جدا ہوجائے،اسی کے بارے میں قرآن کہتا ہے: ’’کہ شاید اللہ تبارک و تعالیٰ اس کے بعد کوئی صورت پیدا کردے،اور وہ یہ کہ اس کوبیوی سے رجوع کرنے کا خیال پیدا ہوجائے،اور جب تین طلاقیں پہلے ہی پڑچکی ہوں تو تین کے بعد دوسری کیا صورت پیدا ہوسکتی ہے؟اور اس کے بعد کون سی امید باقی رہ جاتی ہے؟اسی بناء پر متقدمین ومتاخرین جمہور علماء کا کہنا ہے کہ:یکبارگی تین طلاقیں دینا بدعت ہے، جس سے (شریعت میں)منع کیا گیا ہے،اور یک لخت ایک ہی جملہ میں تین طلاقیں دینے والا شخص بدعتی اور گنہگار ہے۔
اور کہیں سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے عہد مبارک میں کسی شخص نے ایک جملہ میں تین طلاقیں دی ہوں،اسی بنیاد پر ایک جملہ میں دی جانے والی تین طلاقیں علماء کے صحیح قول کے مطابق ایک ہی طلاق شمار کی جائیں گی، چونکہ حضرت ابن عباس ؓ سے صحیح مسلم میں ایک روایت منقول ہے،وہ فرماتے ہیں کہ: ’’حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور حضرت ابوبکر رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے عہد میں اسی طرح حضرت عمرؓ کی خلافت کے دوسال تک تین طلاقیں ایک ہی شمار کی جاتی تھیں)، پھر حضرت عمرؓ نے فرمایا: ’’لوگوں نے ایک ایسے امر میں جلد بازی کی جو ان کے لئے باعث وقاروتمکنت تھا،کاش کہ میں اس کو ان پر نافذ کرسکتا)، چنانچہ انہوں نے اس کو ان پر نافذ کردیا۔‘‘
اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ ان(تین طلاقوں) کا نفاذ حضرت عمرؓ کے اجتہاد کی بنیاد پر ہوا تھا، اور اجتہاد کے مقابلہ میں سنت صحیحہ کو اختیار کرنا زیادہ افضل ہے، اور امت کے حق میں زیادہ نفع بخش اور آسانی کا باعث ہے،اور خاندانوں کو ٹوٹنے اور بکھرنے سے بچانے کے لئے زیادہ موزوں اور بہتر ہے،اس کی تائید ایک روایت سے بھی ہوتی ہے جس کو امام احمدبن حنبلؒ نے اپنی مسند میں حضرت ابن عباسؓ سے عمدہ سند کے ساتھ نقل کیاہے:’’کہ حضرت ابورکانہ ؓ نے اپنی بیوی کو تین طلاقیں دے دیں،پھر ان کو افسوس ہوا تو حضورؐ نے ان سے رجوع کروادیا،اور فرمایا: ’’إنہا واحدۃ‘‘ (وہ ایک ہی ہے)۔
مذکورہ بالا تمام باتوں کا حاصل یہ ہے کہ شدید غصہ کی حالت میں دی جانے والی طلاق واقع نہیں ہوگی، اسی طرح غصہ کی وہ درمیانی حالت (جس میں فقہاء کا اختلاف ہے) میں بھی طلاق واقع نہیں ہوگی، اسی طرح طلاق بدعی بھی واقع نہیں ہوگی جو کہ مدت حیض ونفاس یا ایسے طہر میں دی جائے جس میں زن وشو کا تعلق قائم کیا گیا تھا۔
جہاں تک ایک ساتھ دی جانے والی یا ایک ہی مجلس میں علیحدہ علیحدہ دی جانے والی تین طلاقوں کا مسئلہ ہے تو وہ (دونوں صورتوںمیں)ایک ہی پڑیں گی،اور یہ اس لئے چوںکہ اسلامی شریعت کے مقاصد میں سے ایک مقصد ازدواجی زندگی کی حفاظت اور خاندانوں کو ٹوٹنے سے بچانا بھی ہے،بطور خاص موجودہ دور میں جس میں کہ راستوں پر پائے جانے والے بن ماں باپ کے بچوں کی تعداد بہت بڑھ گئی ہے،اور انسانی سماج میں بے حیائیوں اور برائیوں کی آگ جنگل کی آگ کی مانند پھیل چکی ہے، اور بداطوار وبد طینت لوگ عفت وعصمت اور عزت کی چادر تارتار کرنے کے درپے ہیں۔lll
واللہ اعلم
والسلام علیکم ورحمۃ اللہ وبرکاتہ
تحریر کردہ:۱۸؍ذی قعدہ۱۴۳۶ھ