فرصت کے اوقات کا بہتر استعمال

محمد ابو الفضل

خانہ داری کے کام کاج اتنے زیادہ ہوتے ہیں کہ ایک خاتون اگر ان فرائض کو اچھی طرح سے انجام دینا چاہے تو اس کا زیادہ تر وقت اسی میں صرف ہو جاتا ہے خصوصاً اگر چھوٹے بڑے تلے اوپر کے کئی بچے بھی ہوں۔ اس کے باوجود عورتوں کو تھوڑی بہت فرصت تو مل ہی جاتی ہے۔

ہر شخص اپنے فرصت کے اوقات کو مختلف طریقے سے گزارتا ہے۔ کچھ خواتین ان اوقات کو یوں ہی برباد کردیتی ہیں اور کوئی سود مند کام انجام نہیں دیتیں۔ یا بغیر کسی مقصد کے گھر سے باہر کے چکر لگاتی رہتی ہیں یا کوئی دوسری عورت مل جاتی ہے تو اس سے باتوں میں مشغول ہوجاتی ہیں، یا ایسے گانے سنتی ہیں کہ جن سے سوائے وقت کی بربادی، اعصابی کمزوری اور اخلاقی گراوٹ کے اور کوئی نتیجہ برآمد نہیں ہوتا، اس قسم کے لوگ یقینا نقصان اٹھاتے ہیں کیوں کہ اول تو فرصت کے اوقات بھی انسان کی عمر میں شمار ہوتے ہیں اور ان کو تلف کردینا پشیمانی کا باعث ہوتا ہے۔ انسان کی زندگی اتنی مختصر ہے کہ ابھی آنکھ کھولی نہیں کہ بند کرنے کا وقت آجاتا ہے۔ حیرت کا مقام ہے اگر تھوڑا سا پیسہ کھو جاتا ہے تو ہم افسردہ و غمگین ہوجاتے ہیں لیکن عمر عزیز کو برباد کرکے ہمیں کوئی غم محسوس نہیں ہوتا۔ ایک غافل انسان اپنی قیمتی عمر کے گھنٹوں بلکہ لمحوں کو بھی غنیمت سمجھ کر ان سے زیادہ سے زیادہ استفادہ کرتا ہے۔ فرصت کے اوقات کو کس قدر مفید و بامقصد بنایا جاسکتا ہے! یہ ہمیں سوچتے رہنا چاہیے۔

دوسرا یہ یہ بیکار بیٹھنا خود نقصان دہ ہے اور اس کے برے نتائج برآمد ہوتے ہیں، بہت سی نفسیاتی اعصابی بیماریاں، جن کی اکثر عورتوں کو شکایت رہتی ہے، خالی اور بیکار رہنے کے سبب پیدا ہوجاتی ہیں۔ بیکار آدمی کا ذہن ادھر ادھر بھٹکتا رہتا ہے اور غم و غصہ پیدا کرتا ہے۔ غم و غصہ اعصاب کو کمزور اور روح کو بے چین کرتا ہے۔ وہ انسان خوش نصیب ہے جو کام میں مشغول رہتا ہے۔ کاموں میں مشغول رہنا بہت فرحت بخش عمل ہے۔ بیکار لوگ زیادہ تر مضمحل اور افسردہ رہتے ہیں۔

کیا یہ چیز باعث تاسف نہیں کہ انسان اپنی قیمتی زندگی کو بیکار برباد کردے اور اس سے کوئی نتیجہ حاصل نہ کرے!!

اس لیے انسان اپنے فرصت کے اوقات سے چاہے وہ کم اور مختصر ہی کیوں نہ ہوں، بے شمار فائدے اٹھا سکتا ہے۔ آپ بھی اس سے فائدہ اٹھاتے ہوئے علمی و ادبی کام کرسکتی ہیں۔ اپنے ذوق کے مطابق اور اپنے شوہر سے مشورہ کر کے ایک مضمون کا انتخاب کرلیجیے اس مضمون سے متعلق کتابیں فراہم کیجیے اور فرصت کے لمحات میں ان کا مطالعہ کیجیے اور روز بروز اپنے علم اور معلومات میں اضافہ کیجیے۔

مضمون کا انتخاب، خود آپ کے ذوق سے تعلق رکھتا ہے۔ فزکس، کیمسٹری، سماجیات، سائیکو لوجی، سوشیا لوجی، قانون، تفسیر قرآن، فلسفہ و کلام، علم اخلاق، تاریخ و ادب، ان میں سے کسی بھی مضمون یا کسی دوسرے مضمون کا انتخاب کرسکتی ہیں اور اس پر تحقیق و مطالعہ کرسکتی ہیں۔ جب آپ کتاب پڑھنے کی عادی ہوجائیں گی تو کتاب کے مطالعے میں آپ کو لذت محسوس ہوگی اور اندازہ ہوگا کہ کتابوں کا مطالعہ کس قدر دلچسپ اور بامعنی کام ہے۔

اس طرح آپ بہترین طریقے سے سرگرم عمل بھی رہ سکتی ہیں اور تفریح کا لطف بھی لے سکتی ہیں، روز بروز آپ کے فضل و کمال میں اضافہ ہوگا اور ہمت سے کام لے کر اس عمل کو جاری رکھا تو اس سبجیکٹ میں مہارت پیدا کرسکتی ہیں اور قابل قدر علمی و ادبی خدمات انجام دے سکتی ہیں، مقالے لکھ کر اخبار و رسائل میں شائع کراسکتی ہیں، مفید کتابیں لکھ سکتی ہیں تاکہ آپ کی ذاتی و قلمی کاوشوں سے دوسرے بھی استفادہ کریں۔ اس ذریعے سے آپ کی شخصیت میں نکھار پیدا ہوگا اور آپ کا شمار ایک قابل قدر شخصیت کے طور پر ہوگا۔ علاوہ ازیں اس کے ذریعے مالی فوائد بھی حاصل کرسکتی ہیں۔

یہ خیال نہ کریں کہ امور خانہ داری کے ساتھ ساتھ اتنے بڑے کام انجام نہیں دیے جاسکتے۔ یہ خیال صحیح نہیں ہے۔ اگر کوشش و ہمت سے کام لیں تو یقینا کامیابی آپ کے قدم چومے گی۔ یہ نہ سوچیں کہ عظیم خواتین نے جو گراں قدر آثار و کتب بطور یادگار چھوڑیں ہیں وہ بیکار رہتی تھیں، جی نہیں وہ بھی گھر کے کام کاج انجام دیتی تھیں لیکن اپنے خالی اوقات کو یونہی تلف نہیں کرتی تھیں۔

مسز ڈورتھی کارنگل (Mrs. Dorothy Carnegil)جو گراں قدر کتاب کی مصنفہ ہے اور اس کی کتاب بہت مقبول ہوئی اور بڑی تعداد میں فروخت ہوتی ہے، وہ ایک گھریلو خاتون تھی، اپنے امور خانہ داری کو بخوبی انجام دیتی تھی اور سائنسی تحقیقات میں اپنے شوہر ڈیل کارنیگی(Dale Carnegie) کی مدد بھی کرتی تھی اور خود بھی مطالعے اور تصنیف و تالیف میں مشغول رہتی تھی۔ وہ لکھتی ہے: میں نے اس کتاب کا بڑا حصہ، روزانہ جب میر اچھوٹا بچہ سو جاتا تھا تو دو گھنٹے کی مہلت ملنے پر لکھا ہے۔

مشہور و معروف دانشوروں اور مصنفوں کی صف میں ایسی عظیم خواتین بھی ملتی ہیں جنہوں نے زبردست علمی خدمات انجام دی ہیں اور عظیم آثار بطور یادگار چھوڑے ہیں۔ آپ بھی اگر ہمت و استقامت سے کام لیں تو مردوں کے دوش بدش ترقی کرسکتی ہیں، اگر آپ کے شوہر محقق و دانشور ہیں، تو آپ علمی کاموں میں ان کی مدد کرسکتی ہیں یا مشترکہ طور پر تحقیق و مطالعہ کا کام کرسکتی ہیں۔ کیا یہ افسوسناک بات نہیں کہ ایک پڑھی لکھی خاتون، ازدواجی زندگی میں قدم رکھنے سے دستبردار ہوجائے۔ حضرت علی کرم اللہ وجہ فرماتے ہیں: ’’علم و دانش سے بہتر کوئی خزانہ نہیں۔‘‘

البتہ اگر آپ کو مطالعے کا شوق نہیں ہے تو کوئی ہنر یا دستکاری سیکھ لیجیے اور فرصت کے وقت اس میں مشغول رہیے، مثلاً سلائی، کڑھائی، بنائی، ڈرائنگ، کپڑوں اور کاغذوں کے پھول بنانا وغیرہ کارآمد ہنر ہیں، ان میں سے جو آپ کو پسند ہو اس میں مہارت پیدا کیجیے اور اسے انجام دیتی رہیے۔ اس طریقے سے آپ کا وقت فالتو باتوں میں ضائع نہ ہوگا، آپ کا ذوق و ہنر بھی ظاہر ہوگا۔ اس سے آپ کو آمدنی بھی ہوسکتی ہے اور اپنے گھر کے بجٹ میں مدد کرسکتی ہیں۔

اسلام میں دستکاری کے کاموں کو عورتوں کے لیے اچھا کہا گیا ہے۔ حضرت رسولِ خدا صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں:

’’سوت کاتنے کا کام عورتوں کی سرگری کے لیے اچھا ہے۔‘‘lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی ستمبر 2024

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں