قبرستان سے واپسی پر اس نے عائذ کو املی اور نیم کے ان درختوں کے پاس گاڑی روکنے کا اشارہ کیا، جن کے نیچے اس نے اپنے بابا کی انگلی پکڑ کر چلنا سیکھا تھا۔ بے فکری سے اُڑان بھرتی چڑیوں کی چہچہاہٹ اُسی طرح فضا میں بکھری ہوئی تھی، بلبل کی کوک فضا کو نغمگی کا تاثر دے رہی تھی، کوّے اور مینائیں درختوں کی لمبی لمبی ٹہنیوں پر اسی طرح پھدک رہے تھے، آسمان پر اکا دکا بادل بھی تیرتے نظر آرہے تھے۔ جب چالیس بیالیس سال پہلے وہ بابا کی انگلی پکڑے چلنے کی مشق کررہی ہوتی تو بابا انہی کے درمیان پیچھے پیچھے اسے چلنے پر آمادہ کرتے۔ کہیں کچھ بھی تو فرق نہ پڑا تھا، اور اگر پڑا تھا تو نیم اور املی کے درختوں میں جن کی شاخیں مزید وسیع ہوکر مسافروں کے لیے سایہ فراہم کررہی تھیں۔ کسی بزرگ نے کیا خوب تعلیم دی ہے: ’’لوگوں کے درمیان درختوں کی طرح رہو کہ لوگ پھینکتے ہیں تو ان کی طرف پتھر، اور وہ پھینکتے ہیں ان کی طرف پھل۔‘‘ گویا قوانینِ قدرت کی پاسداری کرنے والے حیوانات و نباتات میں کوئی تغیر اس کے سوا نہ آیا تھا کہ ان کی خیر میں اضافہ ہوا تھا، ترقی کی منزلیں ہی طے کی تھیں انھوں نے رب کی رضا میں۔ تنزل تو تمہاری اپنی ذات میں در آیا ہے۔ تم جو ترقی کی دعویدار ہو، کیا ترقی کی ہے تم نے؟ اس نے اپنے آپ سے سوال کیا۔
جب ماضی کے دریچوں کے پٹ وا ہوجائیں تو دور دور تک یادوں کے تانے بانے پھیل کر ایک جال سے بچھا دیتے ہیں اور حمنہ بھی اس وقت گیلی آنکھوں اور کھوکھلے وجود کے ساتھ اسی جال میں الجھی ہوئی تھی۔ انسان کا اپنے ماضی کی جانب سفر جتنا سہل اور رواں دواں ہے اس کی مثال نہیں دی جاسکتی۔ اس نے نگاہ اٹھا کر لمحہ کو املی کے چھتنار درخت کی جانب دیکھا۔ ہاں حمنہ احمد اس تبدیلی کو ترقی کا سفر سمجھ کر تم نے ہی اس صحرا میں قدم رکھا تھا، جس کی ریت تمہاری آنکھوں اور رگوں میں اترتی چلی آرہی ہے۔ ترقی کا خواب تم نے ہی کھلی آنکھوں سے دیکھنا شروع کیا تھا، حالانکہ فرد کی ترقی و تنزلی تعلیم پر منحصر ہے۔ اور تعلیم تو تمہیں دیہ گئی تھی کہ ’’نگاہ بھی نہ اٹھاؤ دنیوی زندگی اور اس کی شان و شوکت کی طرف جو ہم نے ان میں سے مختلف گروہوں کو دے رکھی ہے، وہ تو ہم نے انہیں آزمائش میں ڈالنے کے لیے دی ہے اور تیرا رب کا دیا ہوا حلال رزق ہی بہتر اور باقی رہنے والا ہے۔‘‘ (طٰہٰ: ۱۳۱)
یادوں کے دریچے وا ہوتے چلے گئے۔
’’ بابا آگئے بابا آگئے۔‘‘ عائذ اور مشاہیر کی خوشی سے معمور آواز پر وہ استری کرتے کرتے چونکی تھی۔ ارے اتنی دیر ہوگئی اور ابھی تو میں نے روٹی بھی نہیں بنائی! وہ استری چھوڑ کر اس تیزی سے باہر آئی کہ کمرے میں داخل ہوتے ہوئے احمد سے ٹکراگئی۔ ’’ارے بھئی صبر، اتنی بھی کیا جلدی ہے۔‘‘ احمد نے ایک شریر مسکراہٹ اس کی جانب اچھال دی اور عائذ و مشاہیر کو اپنے دونوں بازوؤں میں بھر کر ماں جی کی طرف سلام کرنے اور دعا لینے چل دیے۔ تین بیڈ، ایک ڈرائنگ روم اور کامن کی اچھی خاصی وسعت کے ساتھ شوہر کی محبتوں، بیوی کی رفاقتوں، بزرگوں کی دعاؤں، بچوں کی شرارتوں میں ڈوبا احمد ہاؤس… سبھی کچھ تو تھا اس گھر میں۔ ماضی کی خوشگوار یادوں نے اس کا حلق تک نمکین کردیا تھا۔
’’ارے بھئی تمہاری دوست رملہ کے شوہر آئے تھے آفس میں، انھوں نے نیا گھر بنایا ہے، دعوت دے رہے تھے قدم رنجہ فرمانے کی فیملی کے ساتھ۔‘‘ کھانے کے دوران احمد نے بتایا۔ ’’اچھا‘‘ حمنہ نے دلچسپی لی ’’پھر کب چلیں گے؟‘‘ اور پھر وقت اور دن طے ہوگیا۔
رملہ کا گھر واقعی بہت خوبصورت اور وسیع تھا۔ تم جو ہمیشہ کی انا پرست تھیں، تمہیں اسی سمے بے چینی محسوس ہونے لگی، ویسی ہی بے چینی جیسی کلاس میں اگر کوئی تم سے بازی لے جاتا تھا تو اس کو اپنے لیے ایک چیلنج خیال کرتی تھیں۔ اور تمہیں اُس وقت تک چین نہ آتا جب تک سب سے نمایاں نہ ہوجاتیں۔ تمہیں لگا حمنہ احمد کو یہ وسیع و عریض لان اور بہت سے آراستہ و پیراستہ کمروں والا ’’ماجد ولا‘‘ دراصل تمہارا خواب ہے اور تم رملہ کو دلی مبارک باد بھی نہ دے سکیں۔ حمنہ اگر تمہیں اُس وقت اپنے گھر کے عقب میں وہ گھر یاد آجاتا جس میں ایک کمرے اور چھوٹے سے صحن میں گھر کے بارہ افراد اس طرح سوتے کہ حالات انہیں اپنی ٹانگیں سیدھی کرنے کی بھی اجازت نہیں دیتے تو تم اپنے چار کمروں اور کشادہ لان پر سجدئہ شکر نہ سہی شکر تو ضرور ادا کرتیں۔ لیکن جب شیطان باگیں سنبھال لے تو خواہشات کے گھوڑے سموں سے چنگاریاں اڑانے لگتے ہیں اور ان کی زد میں آکر آدمی کب خوش و مطمئن رہ سکتا ہے! سو واپسی پر تم خاصی مضمحل ہوچکی تھیں۔ اور پھر احمد کے ساتھ تمہاری روز روز کی بک بک شروع ہوگئی۔ تکرار نے دلوں کے اطمینان کو رخصت کردیا اور حمنہ احمد تم نے ایک دن چیلنج کے انداز میں اعلان کردیا کہ تم سروس کروگی کیونکہ تم پڑھی لکھی ہو، جرأت مند اور باعتماد … پھر کیوں گھر بیٹھ کر اپنے آپ کو برباد کرتیں!
احمد نے تمہیں کئی بار سمجھایا، تمہیں تمہارے حقیقی میدان میں جوہر دکھانے کے مواقع واضح کیے، لیکن احمد ہاؤس کے بجائے ’احمد وِلا‘ تمہاری انا بن گئے، اور آخر ایک ڈیپارٹمنٹل اسٹور میں تمہیں جاب مل گئی۔ اور جب پہلے دن تم تھکی ہاری شام میں اپنے گھر واپس پلٹیں تو عائذ اور مشاہیر دونوں اپنا ہوم ورک مکمل کرنے کے لیے تمہارے منتظر تھے، لیکن تم تو خود تھکی ہوئی تھیں اور پھر گھر کے دوسرے کام تمہارے حواس شل کررہے تھے، تو تم نے بچوں کو صاف منع کردیا۔ یاد ہے حمنہ اُس وقت مشاہیر نے تمہیں کتنی بے بسی سے دیکھا تھا۔ شاید، اتنی ہی بے بسی یا اس سے بھی زیادہ، جتنی بے بسی کے ساتھ ابھی تم اس کی قبر دیکھ کر آرہی ہو۔ بچوں کے اسکول سے شکایت روز کا معمول بن گئی تو ایک ٹیوٹر رکھ کر تم نے اپنی دانست میں اپنی تعلیم و تربیت کا حق ادا کردیا۔ بچوں نے اپنا وقت گھر سے باہر گزارنا شروع کردیا۔ احمد نے بھی چپ سادھ لی تھی اورتم بھی مصروف تھیں۔ ہر عمر اور مزاج کے بچوں سے دوستی کے سبب معاشرتی خرابیوں نے رنگ دکھانا شروع کردیا تو تم نے انہیں بہت سی سی ڈیز دے کر گھر میں مصروف کردیا۔ سی ڈیز دیکھتے دیکھتے انٹرنیٹ کا چسکا لگا تو تمہیں علم بھی نہ ہوا کب بچے پڑھائی سے دور ہوکر کن مشاغل میں لگ گئے، اور تم یہ احساس بھی نہ کرسکیں کہ فصل کو کسی دوسری زمین یا بے وقت بودیا جائے تو زمین اسے برداشت نہیں کرتی اور نتیجتاً بیج بھی برباد ہوجاتے ہیں، اور اس بربادی کو بزرگ ساس برداشت نہ کرسکیں تو انھوں نے اپنی آنکھیں موند لیں۔ پھر احمد سے بھی جیسے کسی نے جینے کا حوصلہ چھین لیا ہو۔ وہ گنگناتا قہقہے بکھیرتا احمد خود بھی بکھر گیا تھا۔ ابھی تمہیں سروس کرتے پانچ سال ہی تو ہوئے تھے کہ وہ بوڑھا بوژر لگنے لگا تھا۔ لیکن حمنہ احمد تم اپنے تئیں ترقی کی منازل طے کرتی جارہی تھیں۔ پلاٹ اور میٹریل کی رقوم کا بندوبست تم نے کرلیا تھا، بس اب اجرت کا بندوبست اور کرنا تھا۔ پھر ہر طرح کی سہولت سے آراستہ بڑا سا گھر اور پورچ میں کھڑی ایک نئی چمچماتی گاڑی… تمہارے نزدیک بچوں کا بہتر مستقبل یہی تھا، اور مستقبل کے اس سراب کے پیچھے تم یوں سرپٹ دوڑ رہی تھیں کہ راستے میں آنے والی ہر رکاوٹ کو نظر انداز کرتی چلی جارہی تھیں۔ لیکن تمہارے قدم اُس وقت منجمد ہوگئے جب رات کو احمد نے بہت زیادہ گھبراہٹ کے بعد ایک لمبی سے خون کی الٹی بیڈ روم ہی میں کردی۔ تازہ تازہ سرخ خون تمہارے ہاتھوں پر آرہا اور قالین پر گرنے والے خون نے تمہارے پیر پکڑ لیے۔ خون تو وہ پہلے بھی تھوکتا رہا تھا، لیکن ۸؍گھنٹے کی لمبی سروس اور گھر کے کاموں کی تھکن تمہیں ایسابے سدھ کردیتی تھی کہ تمہیں نہ احمد کی آنکھوں کی بجھتی قندیلیں نظر آسکیں نہ پیلی ہوتی رنگت … اور تم تو اس وقت چکرا کر گری تھیں جب ڈاکٹر نے احمد کے لیے TB کے آخری اسٹیج کی نشاندہی کی تھی۔ ہاں دیمک اسی طرح تو لگتی ہے کہ انسان کو بظاہر کچھ بھی نظر نہیں آتا، وہ کچھ بھی نہیں سمجھتا اور سرمایہ مٹی ہوچکا ہوتا ہے۔ اور جب ذرا سی ٹھیس پر آخری پرت بھی گرجاتی ہے تو بندہ پھٹی پھٹی آنکھوں سے مٹی کے اس ڈھیر کو دیکھ رہا ہوتا ہے، جس کی حیثیت کچھ بھی نہیں رہتی۔
’’احمد وِلا‘‘ کے لیے جمع کیا گیا بینک بیلنس اگرچہ موجود تھا، لیکن وہ احمد کو زندگی کا سائبان مہیا نہ کرسکتا تھا کہ پلوں کے نیچے سے پانی گزرچکا تھا۔
اس پورے تین ماہ کے عرصے میں عائذ تو اکثر تمہارے قریب ہی ہوتا اور حتی المقدور تمہارا خیال بھی کرتا لیکن مشاہیر اول تو گھر میں رہتا ہی کم تھا، اور ہوتا بھی تو کہیں کھویا کھویا سا۔ تم نے اس سے اُس کی مصروفیات کے بارے میں سوال بھی کیا تو ہمیشہ اس نے تمہیں خالی خالی نظروں ہی سے دیکھا۔ کالج وہ جاتا نہ تھا تو پھر؟ یہ معمہ حل نہ ہوتا تھا۔
رات بھر تلخ یادوں اور بے چین کروٹوں کے بعد بڑی مشکل سے تمہاری آنکھوں کے پپوٹے نیندسے بوجھل ہوئے تھے کہ تڑڑ، تڑڑ کی آواز پر تم ہکا بکا اٹھ کر دوڑی تھیں، لیکن دماغ میں ایک ساتھ تین گولیاں کب کسی کو جیتا چھوڑتی ہیں! راتوں رات کروڑپتی بننے کی خواہش نے مشاہیر کے تعلقات جن افراد کے ساتھ استوار کرائے تھے وہاں کسی کام سے انکار کا مطلب بغاوت اور بغاوت کی سز ا موت ہوا کرتی ہے۔ تین ماہ میں گھر سے دوسری میت اٹھی تو کلیجے منہ کو آگئے اور آنکھیں پتھرا گئیں۔ اور اب عدت پوری ہونے پر تم ایک نہیں، دو قبروں پر آنسو بہاکر آرہی ہو۔ یہ باغ جو تمہاری بچپن کی یادوں کا امین ہے اس بات پر شاہد ہے کہ بے چوں و چرا رب کی فرماں برداری کے نتیجے میں کچھ اور ہرا بھرا اور انسانوں کے لیے راحت و آرام کا باعث بنا ہوا ہے… ہوا سے جھومتے ہوئے، تسبیح رب میں دن رات مشغول۔