انسانوں کی تمام کوششوں کا اگر بغور جائزہ لیا جائے تو معلوم ہوگا کہ حقیقی کامیابی حاصل کرنے کا فطری طریقہ یہی ہے کہ کسی بڑی تکلیف و مصیبت سے رہائی کے لیے تھوڑی سی تکلیف گوارا کرلی جائے۔ عارضی کامیابیوں کو اس غرض سے قربان کیا جائے کہ آئندہ کی خوشی اور دائمی کامیابی نصیب ہو۔ یہ وہ سچائی ہے جس کے تسلیم کرنے سے کوئی گریز نہیں کرسکتا۔ مگر ہماری خود فریبی کا یہ عالم ہے کہ ہماری فکر کے موضوعات میں وہی چیزیں اہم ہوگئی ہیں جو فانی ہیں اور جن کی ساری چمک دمک زندگی کی دیوار سے اترتی ہوئی دھوپ کی حیثیت رکھتی ہے۔ ہماری اس غلط روی کی نشاندہی قرآن حکیم میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح کرتا ہے:
’’مگر تم لوگ دنیا کی زندگی کو ترجیح دیتے ہو، حالاں کہ آخرت بہتر ہے اور باقی رہنے والی ہے۔‘‘ (الاعلیٰ)
نقطہ نظر کی اس تبدیلی اور فکر آخرت سے محرومی یا آخرت فراموشی کی وجہ سے ہم میں دنیا کی چیزوں سے لذت حاصل کرنے کا ایک جنون اور اس کے نتیجہ میں ایک بحران پیدا ہوگیا ہے۔ ہماری ساری کوششیں زندگی کی لذت حاصل کرنے کے لیے صرف ہو رہی ہیں۔ ہمارے اس طرزِ عمل نے زندگی کو مسابقت کا ایسا میدان بنا دیا ہے جس کا کوئی اختتام نہیں۔ زندگی ایک نہ بجھنے والی پیاس اور حوائج زندگی کی تکمیل ایک نہ مٹنے والی بھوک بن چکی ہے۔ ضروریات بڑھتی جا رہی ہیں، نفس کے مطالبات بڑھتے جا رہے ہیں۔ سامان حیات میں تنوع بڑھتا جا رہا ہے اور حرص و ہوس کے اس طوفان میں ہر شخص جب آنکھ اٹھا کر دیکھتا ہے تو اس کی منزل مقصود نظر آتی ہے۔ وہ یہ محسو س کرتا ہے کہ وہ ایک عذاب میں مبتلا ہے۔ الغرض اس کی جدوجہد لامتناہی ہے۔
فکر آخرت نہ ہونے کی وجہ سے دنیا اور اس کی لذت ہی کو انسان مقصود حیات قرار دے بیٹھا ہے۔ حالاں کہ آخرت پر ایمان رکھنے والوں کی زندگی اور آخرت کی فکر کرنے والوں کا انداز اس سے قطعا مختلف ہوتا ہے۔ وہ خوب جانتے ہیں کہ متاع دنیا خواہ کتنی ہی پرکشش کیوں نہ ہو بہرحال قلیل اور ناپائدار ہے۔ اس کے حصول کی دیوانہ وار کوششوں میں الجھ کر فکر آخرت کو دل سے بھلا دینااور آخرت کو فراموش کر دینا بہت بڑی معصیت ہے۔ ہمیں اس قرآنی آیت کے پیام پر غور کرنا چاہیے:
’’لوگو! تمہاری یہ سرکشی تمہارے ہی خلاف پڑ رہی ہے دنیا کی زندگی کے چند روزہ مزے ہیں، پھر ہماری طرف تمہیں پلٹ کر آنا ہے اس وقت ہم تمہیں بتادیں گے کہ تم کیا کچھ کرتے رہے ہو۔‘‘ (یونس)
بلاشبہ خطاب منکرین آخرت سے ہے مگر دو حقیقتیں تو آخرت پر ایمان رکھنے والوں کو بھی ذہن نشیں کرلینی ہیں: ایک یہ کہ دنیا اور اس کی ہر لذت اور اس طرح جہان فانی اور اس کے سارے ساز وسامان بہرحال عارضی اور ناپائدار ہیں اور دوسری بات یہ ہے کہ سفر حیات چاہے جس قدر بھی طویل ہو، سفر ہے اور اس کی منزل آخرت ہے۔ ہر شخص کو لوٹ کر وہیں جانا ہے جہاں ذرے ذرے کا حساب ہوگا، جہاں سارے اعمال کی پوچھ گچھ ہوگی۔ جزا اور سزا کے اٹل قانون کا سامنا ہر ایک کو کرنا ہے۔
ایک مومن جب اس یوم آخرت کی فکر کرتا ہے تو اس کی حرص و ہوس کے شعلے سرد پڑ جاتے ہیں۔ غرور و پندار کی عمارت زمین بوس ہو جاتی ہے۔ بدمعاملگی اور اللہ کے بندوں کے ساتھ زیادتی کا مذموم جذبہ ختم ہو جاتا ہے۔ جواب دہی کے خیال سے وہ کانپ اٹھتا ہے۔ گناہوں کا احساس اس کی آنکھوں سے آنسوؤں کا سیلاب بن کر امڈنے لگتا ہے۔ اس میں خود احتسابی کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے۔ وہ قدم قدم پر سوچتا ہے کہ کہیں ہمارا کوئی کام اللہ تعالیٰ کی مرضی کے خلاف تو نہیں ہے؟ وہ دنیا میں اپنی عزت اور سرفرازی اپنی راحت اور مسرت کے ہر سامان پر شکر ادا کر کے یہ ضرور سوچتا ہے کہ معلوم نہیں وہاں کیا ہوگا؟ نامۂ اعمال دائیں ہاتھ میں ملے گا یا بائیں ہاتھ میں؟ پل صراط کس طرح عبور ہوگا؟ میزان کے قیام کے بعد اپنا کیا عالم ہوگا؟ یہ سوچ کر اس کے رونگٹے کھڑے ہوجاتے ہیں۔
حضرت عطاء سے روایت ہے کہ ایک دن وہ اور حضرت عمیر ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہؓ کی خدمت میں حاضر ہوئے اور ان سے درخواست کی کہ وہ سنن نبوی کی کوئی عجیب بات انہیں سنائیں۔ ام المومنین اشک بار ہوگئیں۔ پھر آپ نے فرمایا کہ حضور ایک رات تشریف لائے۔ تھوڑی دیر بیٹھنے کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم نے فرمایا: عائشہ! مجھے چھوڑ دو کہ میں اپنے پروردگار کی عبادت کروں، پھر آپ نے وضو فرمایا، نماز پڑھی اور اس قدر روئے کہ ریش مبارک آنسوؤں سے تر ہوگئی۔ سجدے میں اس قدر اشکبار ہوئے کہ زمین نم ہوگئی۔ پھر آپ لیٹ گئے۔ بلال رضی اللہ تعالیٰ عنہ نماز صبح کی اطلاع کے لیے آئے تو انھوں نے عرض کیا یا رسول اللہؐ آپ کے تو اگلے اور پچھلے سب گناہ اللہ تعالیٰ نے معاف کر دیے ہیں۔ آپؐ کیوں روتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم نے فرمایا: ’’بلال‘‘ آج رات یہ آیت مجھ پر اتری ہے۔
’’زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری سے آنے میں ہوش مند لوگوں کے لیے بہت نشانیاں ہیں۔‘‘ (آل عمران)
آپ کے ارشاد کے مطابق بدنصیب ہے وہ شخص جو اس آیت کو پڑھے اور اس میں فکر نہ کرے۔ غور طلب یہ بات ہے کہ کہ اس میں کون سا نکتہ پوشیدہ ہے؟ وہی قیامت و آخرت جس کی فکر کی تاکید فرمائی گئی! حدیثوں میں آیا ہے کہ سرور کائنات پر حزن کی ایک کیفیت طاری ہوتی تھی جو فکر آخرت کی وجہ سے ہوتی تھی۔ آندھی اور طوفان دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ وآلہٖ و سلم کو تشویش ہوتی۔
یہ صحیح ہے کہ زندگی بھی اللہ تعالیٰ کی ایک نعمت ہے۔ دنیا اور اس کی آسائشیں بھی اس کی عنایتوں سے میسر آتی ہیں۔ ان سے فائدہ اٹھانا، سلیقے سے زندگی گزارنا عافیت اور آرام کی قدر کرنا، معاشی جدوجہد کرنا، دنیوی ترقی کی منزلیں طے کرنا فکر آخرت کے خلاف نہیں۔ فکر آخرت سے غفلت یہ ہے کہ انسان ان چیزوں کو اپنا مقصود بنالے اور اللہ تعالیٰ کی رضا اور خوش نودی کے بجائے کوئی اور چیز اسے مطلوب ہو اور وہ آخرت کو بھول کر دنیوی ترقی کی دوڑ میں کتاب اللہ کی قائم کردہ حدود سے تجاوز کر جائے۔lll