قرآن اور ہماری زندگی

ارشد احمد بیگ

اسلامی تاریخ کا مطالعہ بتاتا ہے کہ دعوت و ارشاد، تزکیہ و تربیت اور تعلیم و تبلیغ میں ’’فرد سے فرد کا تعلق‘‘ انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ بے ریا اور بے مثال تعلق تبدیلی کی پہلی سیڑھی ہے۔ لوگوں کے اذہان و قلوب میں تبدیلی ایک صبر آزما کام ہے۔ خون جگر چاہیے، درد دل چاہیے، فکر و اضطراب چاہیے۔

ہم دیکھتے ہیں کہ اسلام کے اولین دور میں ایک فرد تابندہ روشن کردار کا مالک، اپنی ذات میں خود ادارہ، بے ریا اور وفا شعار، ایثار کیش اور مخلص، داعی اور کیسا داعی! داعی الی اللہ ایسے ہی ستھرے کردار رول ماڈل بنے اور تبلیغ اسلام کا ذریعہ بنے۔ یہ جہاں جہاں گئے اپنے اجلے کردار سے ایک دنیا کو اپنا ہم نوا بنا لیا۔ جن کے قول پر لوگ لبیک کہتے اور جن کے عمل کی گواہی دیتے۔ تحریکوں میں ایسے سچے رول ماڈل ہی اصل اثاثہ ہیں۔ یہ سرمایہ کم ہو رہا ہو توفکر ہونی چاہیے۔ دنیاوی جاہ و حشمت سے ایسے کرداروں کا اجلا پن متاثر ہو رہا ہو تو اور بھی تشویش کی بات ہے۔

فرد کی تیاری اور میدان عمل میں تفویض اصل کام ہے۔ حضرت عمر بن خطابؓ اپنے بہترین افراد بلاد اسلامیہ میں روانہ کرتے تو فرماتے: ’’مجھے ان کی زیادہ ضرورت مدینے میں ہے، مگر تمہاری خاطر تمہاری جانب روانہ کر رہا ہوں۔‘‘ مکہ، یمن، حمص، فلسطین، نسطاط، کوفہ، بصرہ، ہر جگہ ایک روشن کردار۔ بعد کے ادوار میں جنوبی افریقہ سے انڈونیشی جزائر تک اور ہند سے الجیریا تک مسلمان تاجروں کے اُجلے کردار اور دیانت داری کے بے مثال مظاہروں نے دنیا کو اپنی جانب متوجہ کیا۔ اسلامی دنیا کے سپہ سالاروں نے ایسا لازوال کردار پیش کیا کہ جس کی مثال آج کی دنیا پیش کرنے سے قاصر ہے۔

دنیا بھر میں نو مسلم افراد کی کہانیاں پڑھیے۔ جانئے کہ وہ کیسے دین اسلام کے قریب آئے۔ آپ دیکھیں گے کہ ایک بات کم و بیش مشترک ہے کہ وہ کسی فرد، مرد یا عورت یا کسی خاندان سے متاثر ہوئے۔ ان کا اٹھنا، بیٹھنا، چلنا پھرنا، کھانا پینا، خوشی و غم، تعلق باللہ، معاملات ومعمولات نے انھیں اتنا متاثر کیا کہ وہ دین اسلام کی چھتری تلے آگئے۔ جی ہاں کردار، کردار اور صرف کردار۔ بے داغ اور اُجلا پن۔ اصل اور قیمتی سرمایہ، پہاڑی کے چراغ اور روشنی کے مینار، معروف یا گمنام، کارکن ہو یا قائد، کردار کہ انگلی نہ اٹھ سکے۔

دین اسلام کی سیاسی تفہیم کی حیثیت نظمِ مملکت کے ایک بنیادی ڈھانچے کی ہے۔ ظاہر ہے کہ یہ ڈھانچہ ہی نہ ہو تو عمارت کیسے کھڑی ہوسکتی ہے۔ لیکن اس ڈھانچے میں اصل حقیقت وہ اخلاقی نظام ہے جو خون کی گردش کی طرح دوڑتا ہے۔ اسی سے جسم و جان کی رعنائی قائم ہے۔ قرآن اس تصورِ اخلاق پر جتنا زور دیتا ہے، وہ اظہر من الشمس ہے۔ خود اللہ کے رسولؐ کا یہ قول کہ ’’میں اس لیے بھیجا گیا ہوں کہ مکارم اخلاق کی تکمیل کروں۔‘‘ یہ ظاہر کرتا ہے کہ اہل ایمان کے انفرادی اور اجتماعی تمام ہی امور میں حسن اخلاق کو بنیادی قوت قرار دیا گیا ہے۔

بیسویں صدی کے مشہور مفسر قرآن مولانا اشرف علی تھانویؒ کی تفسیر، بیانات اور مواعظ پر نظر ڈالیے، اخلاق حسنہ کی اہمیت مسلمہ نظر آتی ہے۔

مفکر اسلام ڈاکٹر محمد اقبالؒ کے کلام سے گزریں تو بندۂ مومن کی صفات جا بجا نظر آئیں گی۔

امام غزالی کو پڑھیے، امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اور امام نوویؒ کا مطالعہ تو کیجیے۔ کیمیائے سعادت، احیاء العلوم، ریاض الصالحین، الادب المفرد، نظرۃ النعیم اور خلق المسلم تو دیکھئے، ہمارے اسلام نے اس تصور اخلاق اور اس کے نتیجے میں قائم ہونے والے نظامِ اخلاق پر کتنا دقیق کام کیا ہے۔

آئیے سب سے بڑے منبع علم کی طرف کہ تطہیر افکار و تعمیر کردار کا نسخہ بھلا اور کہاں ملے گا؟ اللہ کی کتاب تو ایسی شخصیت کی تعمیر کرنا چاہتی ہے کہ جو اخلاقِ حسنہ کا نمونہ ہو جو اخلاقِ رذیلہ سے مبرا ہو اور صبغۃ اللہ کا پیکر ہو۔ سورۃ الفاتحہ سے سورۃ الناس تک اللہ کا کلام بے مثل انسانی شخصیت کی نمو، نکھار، سدھار، سنور اور فوز و فلاح کا پیغام لیے ہوئے ہے۔ یہ قرآن دلوں کے زنگ کو دور کرتا ہے اور فرد و اجتماعیت کو ارفع اور بلند کرتا ہے۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ کوئی ایسی بھی صبح طلوع ہو کہ شرعی معذوریوں اور ناگزیر مجبوریوں کے علاوہ صاحب ایمان نے قرآن مجید کی تلاوت نہ کی ہو؟ کیا ایسا ہوسکتا ہے کہ وہ قرآن کو مونس و غم خوار سمجھتا ہو لیکن اس کے پاس اس کتاب عظیم الشان کے لیے وقت نہ ہو؟ کیا یہ بات عقل میں سما سکتی ہے کہ وہ ’’قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھو اور پوری دنیا پر چھا جاؤ‘‘ کے سلوگن کو تو اختیار کرتا ہے مگر قرآن و سنت سے بنا وابستگی ہی ساری دنیا پر چھا جانے کی فکر میں مبتلا ہو۔

آپ رابعہ العدویہ کے پلے کارڈ اٹھا کر ان سے اظہارِ یک جہتی کرتے ہیں، بہت خوب۔ مگر ذرا غور تو کیجیے کہ رابعہ کے مکین اخوان المسلمون کس مٹی کے بنے ہوئے ہیں کہ اکیسویں صدی میں عزیمتوں کی لازوال داستانیں رقم کر رہے ہیں۔ جی ہاں! دوبارہ غور کیجیے۔ ملاحظہ کیجیے۔ مشاہدہ کیجیے، تجزیہ کیجیے، یہ قرآن مجید ہے کہ جس کے سائے میں زندگی کے شب و روز گزرے ہیں اور جوانیاں ڈھلی ہیں۔ بے سرو سامانی کی حالت میں جب پانی کا ایک گھونٹ اور روٹی کا ایک نوالہ بھی میسر نہیں مگر یہ قرآن ان کے ہاتھوں میں نظر آتا ہے۔ قرآن زندگی کا نصاب قرار پائے تو کرشمے دکھلائے، معاشرے کی زرخیز زمین برگ و بار لائے، جدوجہد ثمر آور بنے، اجتماعیت قوت میں ڈھلے اور دلوں کو اطمینان نصیب ہو خواہ دنیاوی ناکامی ہی مقدر ٹھیرے۔

دینِ اسلام کی ترویج اور پھیلاؤ میں قرآن کا کردار کلیدی اہمیت کا حامل رہا ہے۔ یہ قرآن ہی تھا، جس نے گلہ بانوں کو جہاں بان بنا دیا تھا۔ یہ قرآن ہی تھا جس نے عزم و آہن کے پیکر، چٹان جیسے وجود کو ریزہ ریزہ کردیا تھا۔ یہ عمر بن خطابؓ تھے۔ اسی کتاب بے مثل کی پراثر آیات تھیں کہ جس نے نجاشی کو اپنے ہی شاہی دربار میں پگھلا کر رکھ دیا تھا۔ نبی کریمﷺ جب دعوت دیتے تو قرآن پڑھتے۔ ڈاکٹر مائیکل ہارٹ نے تاریخ انسانی پر اثر انداز ہونے والے ۱۰۰ انسانوں کی فہرست مرتب کی تو رسول اللہﷺ کو سر فہرست رکھنے پر مجبور ہوا۔ اس نے لکھا کہ محمدؐ اس قرآن کے ذریعے سے دنیا پر اثر انداز ہوئے۔ اور یہ قرآن ہی تھا، جس نے اسلام کی عظیم سلطنت کو قوت بخشی۔ یہ قرآن اندرونی توانائی فراہم کرتا ہے۔ بھلا اس کتاب بے بدل و بے مثل کی گھنی چھاؤں کو چھوڑ کر اسلام کا کوئی ماننے والا کیسے جی سکتا ہے؟

سمجھنا چاہیے کہ انسان کے اندر کی داخلی قوت کی بڑی اہمیت ہے۔ اس کا تعلق قلب کی صفائی سے ہے، روح کی بالیدگی اور نکھار سے ہے۔ نصب العین پر پختہ یقین اس قوت کو مہمیز دیتا ہے، نشاناتِ منزل کے درست ادراک سے اسے توانائی ملتی ہے۔ ’’اللہ کا دھیان‘‘ کیا کہنے!! کیسا ٹانک اور کیسی بیٹری ہے۔ یہ سرمایہ نہیں تو قوتِ عمل بہر صورت متاثر ہوکر رہے گی۔lll

مزید

حالیہ شمارے

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ ستمبر 2023

شمارہ پڑھیں

ماہنامہ حجاب اسلامی شمارہ اگست 2023

شمارہ پڑھیں