اللہ جل شانہ نے قرٓن کریم کو ساری انسانیت کی ہدایت و رہ نمائی کے لیے نازل فرمایا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو انسانوں کے لیے امانت قرار دیا ہے۔
’’ہم نے اس امانت کو آسمان، زمین اور پہاڑوں کے سامنے پیش کیا تو وہ اسے اٹھانے کے لیے تیار نہ ہوئے اور اس سے ڈر گئے، مگر انسان نے اٹھا لیا، بے شک وہ بڑا ظالم اور جاہل ہے۔‘‘ (الاحزاب:۷۲)
امانت سے مراد وہی خلافت ہے، جو قرآن مجید کی رو سے انسان کو زمین پر عطا کی گئی ہے۔ اس سرزمین پر بسنے والے انسانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ خدا کی عطا کی ہوئی امانت کو سمجھیں، سمجھائیں، اس کے پیغام کو ساری دنیا تک پہنچائیں اور اس امانت کے ذریعے عطا کردہ اصول کو پوری دیانت داری اور انصاف کے ساتھ زمین پر نافذ کریں۔
انسان جب بصیرت کے ساتھ قرآن میں غور و فکر کرتا ہے تو اسے معلوم ہوتا ہے کہ اللہ کا کلام کائنات کی ہر چیز سے بلند و برتر ہے۔ قرآن ایک ایسی دولت ہے جو دنیوی اور اخروی زندگی دونوںجگہ انسانوں کے ساتھ رہتی ہے۔ قرآن کریم اللہ جل شانہ کا بابرکت کلام ہے اور جو اس کو اپنی زندگی میں داخل کرلیتا ہے وہ باعزت اور باکردار ہو جاتا ہے۔ قرآن قلبِ انسانی کا نور ہے، اگر دل پر طاری ہوجائے تو دل کی دنیا کو بدل ڈالے، پھر اس تبدیلی کا اثر انسان کی سیرت و کردار اور ماحول و معاشرہ پر پڑتا ہے۔ اللہ کا یہ مقدس کلام صرف تلاوت اور مصلی پر بیٹھنا نہیں سکھاتا، بلکہ پیدائش سے لے کر جنت تک ہر ہر قدم پر انسان کی رہبری کرتا ہے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ ہم اپنی زندگی کو بہتر بنانے کے لیے اس نسخہ کیمیا کو استعمال کریں۔ خدا کے اس پیغام کو صرف سمجھ لینا ہی کافی نہیں ہے، بلکہ اس کے بتائے ہوئے طریقوں کے مطابق اپنی زندگی کو ڈھالنا اصل مدعا ہے۔
اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو ’’ہدی للناس‘‘ کہا ہے۔ یعنی تمام انسانوں کے لیے ہدایت نامہ ہے۔ انسان اگر فکری اور عملی گمراہی سے نجات حاصل کرنا چاہتا ہے، دل و دماغ کی تاریکیوں کو مٹانا چاہتا ہے تو اس کے لیے ضروری ہے کہ وہ قرآن کو اپنی زندگی میں داخل کرے۔ قرآن کریم سے ہدایت اسی وقت حاصل ہوسکتی ہے، جب ہم تلاوت کے ساتھ اس کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی کوشش کریں گے۔ یہ حقیقت واضح ہونی چاہیے کہ یہ صرف علم کی کتاب نہیں بلکہ لائحہ عمل اس کے اندر موجود ہے اور اس پر عمل کر کے ہم اپنا دل و دماغ، اپنا گھر، معاشرہ، ماحول اور سماج کو مثالی بنا سکتے ہیں۔ قرآن عبادت بھی ہے، نور بھی ہے، منزل بھی ہے اور مقصد بھی۔ حضرت حسن بصریؒ فرماتے ہیں کہ ’’پہلے لوگ قرآن کریم کو اللہ کا فرمان سمجھتے تھے، رات بھر اس میں غور و تدبر کرتے تھے اور دن کو اس پر عمل کرتے تھے۔‘‘
اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: ’’جن لوگوں کو ہم نے کتاب دی ہے، وہ اسے اس طرح پڑھتے ہیں جیسا کہ پڑھنے کا حق ہے اور وہ اس قرآن پر سچے دل سے ایمان لاتے ہیں اور جو اس کے ساتھ کفر کا رویہ اختیار کرتے ہیں، وہی در اصل نقصان اٹھانے والے ہیں۔‘‘ (البقرۃ:۱۲۱)
اس آیت سے معلوم ہوتا ہے کہ قرآن مجید کی تلاوت صحت اور تجوید کے ساتھ ہونی چاہیے۔ پورے قرآن کریم کو یاد کرنا مطلوب اور مستحسن عمل ہے، اس کا اہتمام ہونا چاہیے، لیکن اگر مکمل نہ ہوسکے تو کم از کم اتنی سورتیںضرور یاد کرلی جائیں، جن کے ذریعے آسانی کے ساتھ نماز کی ادائیگی کی جاسکے۔ اس سلسلے میں اپنے بچوں اور دیگر عزیز و اقارب کی طرف خصوصی توجہ ضرور کی جانی چاہیے۔
قرآن کریم کو یاد کرنے کی کوئی عمر نہیں ہے، اس کو ہر عمر میں یاد کیا جاسکتا ہے۔ اللہ تعالیٰ نے قرآن کریم کو آسان کر دیا ہے۔ خود ارشاد ربانی ہے: ’’ہم نے قرآن کو یاد دہانی کیلیے آسان کردیا ہے، تو ہے کوئی یاد دہانی حاصل کرنے والا۔‘‘ (القمر:۴۰)
حضرت ابو ہریرہؓ بیان فرماتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے ایک وفد بھیجا اور اس وفد کے ہر فرد سے قرآن پڑھوایا، پھر ان میں سے سب سے کم عمر صحابی سے پوچھا تم کو قرآن کتنا یاد ہے؟ انہوں نے کہا: فلاں فلاں سورتیں۔ آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا: کیا سورہ بقرہ بھی یاد ہے؟ انہوں نے کہاںہاں، تو آپ صلی اللہ علیہ و آلہٖ و سلم نے فرمایا تم ہی اس وفد کے امیر ہوگے۔ اس حقیقت کو بھی ذہن نشین رکھنا چاہیے کہ قرآن جتنی عظیم اور مقدس کتاب ہے، حامل قرآن بھی اس کی نسبت سے عظیم ہے اور عزت و احترام اور امامت و امارت کے اعلیٰ ترین مناصب کے سب سے زیادہ حق دار ہیں۔
مومن کی شان یہ ہونی چاہیے کہ وہ ہر لمحہ اپنے دل و دماغ کو قرآن کے نور سے منور کرے اور اس کی روشنی میں اپنی زندگی کا سفر طے کرے۔
مدرس مدرسہ تعلیم القرآن
مسجد اشاعت اسلامی، دعوت نگر، نئی دہلی-۲۵