قرآن کریم زندگی کے تمام شعبوں سے متعلق اصول و ضوابط فراہم کرتا ہے اور یہ اصول و ضوابط ایسے جامع و محکم ہیں کہ ہر دور میں ان کی اہمیت، افادیت اور معنویت مسلم رہی ہے۔ گھر میں داخل ہونے سے لے کر سلام، کھانے پینے، اٹھنے بیٹھنے، چلنے پھرنے، لباس، خاطر و مدارات اور تحفہ و تحائف دینے تک معاشرتی زندگی کا کون سا ایسا پہلو ہے جس کے بارے میں قرآن کی روشن ہدایات و تعلیمات نہ ملتی ہوں بشرطے کہ ہم ان کو جاننے کی کوشش کریں۔
آداب معاشرت کے ضمن میں قرآن کی اولین تعلیم گھر میں داخلے کے طور و طریق سے متعلق ملتی ہے اور وہ یہ کہ کسی گھر میں داخل ہونا ہو تو اجازت لے کر اور سلام کے بعد داخل ہوا جائے۔ اور اگر صاحب مکان کی جانب سے یہ کہا جائے کہ واپس جاؤ تو بلا تکلف واپسی اختیار کی جائے۔
ترجمہ: ’’اے لوگو جو ایمان لائے ہو اپنے گھروں کے سوا دوسروں کے گھروں میں نہ داخل ہو جب تک کہ تم تعارف نہ پیدا کرلو اور گھر والوں کو سلام نہ کرلو، یہ طریقہ تمہارے لیے موجب خیر و برکت ہے، تاکہ تم یاد دہانی حاصل کرو۔ اور اگر اس میں کسی کو نہ پاؤ تو نہ داخل ہو جب تک کہ تم کو اجازت نہ دے دی جائے، اور اگر تم سے کہا جائے کہ واپس چلے جاؤ تو واپس ہو جاؤ، یہ تمہارے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے جو کچھ تم لوگ کرتے ہو اللہ اس سے خوب واقف ہے۔‘‘ (نور:۲۷-۲۹)
ان ہدایات سے مقصود اصلاً ان رخنوں کو بند کرنا ہے جو معاشرہ میں بد نگاہی، بے حیائی اور دوسرے بہت سے اخلاقی مفاسد کو راہ دیتے ہیں۔
یہاں یہ واضح رہے کہ سلام کرنا ہر حال میں مطلوب ہے۔ گھر میں داخل ہونے سے قبل یا داخل ہوتے وقت۔ سلام کرنا اس وجہ سے اور پسندیدہ ہے کہ یہ اجازت لینے کا بہترین طریقہ ہے، جیسا کہ ایک حدیث میں بیان کیا گیا ہے کہ بنو عامر کا ایک شخص نبی کریمؐ کے گھر آیا اور اندر آنے کی اجازت چاہتے ہوئے کہنے لگا: ’’کیا میں اندر داخل ہوجاؤں(الخ)۔ آپﷺ نے اپنے خادم سے فرمایا: جاؤ اس کو اجازت لینا سکھا دو کہ وہ یوں کہے: السلام علیکم۔ کیا میں اندر آجاؤں۔ یہ بات اس شخص نے سن لی۔ اس نے کہا السلام علیکم۔ کیا میں اندر آؤں۔ آپﷺ نے اس کو اندر آنے کی اجازت دے دی۔ (سنن ابوداؤد)۔ دوسرے یہ بھی مسنون ہے کہ کسی کے گھر میں داخل ہوتے وقت وقفہ وقفہ سے تین بار سلام کیا جائے، اور اگر کوئی جواب نہ ملے تو واپسی اختیار کی جائے۔
قرآن کریم سے یہ معلوم ہوتا ہے کہ سلام کے آداب میں یہ بھی ہے کہ جب کوئی سلام کرے تو اس کا جواب اس سے بہتر طریقہ پر دیا جائے۔ ارشادِ ربانی ہے:’’اور جب کوئی تمہیں سلام کرے تو تم اس کو اس سے بہتر طریقہ سے جواب دیا۔ یا کم از کم سلام کے جواب میں وہی الفاظ لوٹا دو۔‘‘
اس کا ایک مفہوم تو یہ بیان کیا گیا ہے کہ سلام کا جواب خندہ پیشانی و خوش حالی سے دیا جائے، دوسرے یہ کہ جواب دیتے وقت دعا کے کچھ الفاظ بڑھا دیے جائیں۔
قرآن نے ملاقات کے آداب بتائے ہیں ان میں یہ بات بھی ہے کہ نہایت خندہ پیشانی سے ملا جائے، غرور و تکبر کا رویہ نہ اختیار کیا جائے اور قرآن کی تعبیر کے مطابق ملاقات کے وقت منہ نہ ٹیڑھا کیا جائے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’اور (غرور میں) لوگوں سے منہ نہ ٹیڑھا کرو۔‘‘
منہ ٹیڑھا کرنا متکبرانہ انداز اختیار کرنے کی بہترین تمثیل ہے۔ یہ مومن کی شان کے خلاف ہے، بلکہ ایمان اور کریمانہ اخلاق کا تقاضا یہ ہے کہ ملاقات کے وقت خلوص و محبت سے پیش آئے اور خاکساری کا مظاہرہ کرے۔ حقیقت یہ کہ کسی سے خندہ پیشانی سے ملنا بھی ایک نیکی ہے جیسا کہ فرمان نبویﷺ ہے کہ نیکی کی کسی بات کو حقیر نہ خیا کرو، گرچہ وہ اپنے بھائی سے ہنسی خوشی ملنا ہی کیوں نہ ہو (صحیح مسلم) اسی کے ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ ملاقات کے وقت بات چیت میں نرم لہجہ اختیار کیا جائے اور بھلی بات کہی جائے۔ اللہ رب العزت کا فرمان ہے:
ترجمہ: ’’اور لوگوں سے بھلی بات کہو۔‘‘ (البقرۃ:۸۳)
اس آیت سے مراد یہ ہے کہ بات چیت میں سختی و تندی کا اظہار نہ ہو، بلکہ نرم لہجہ اور اچھے الفاظ میں بات چیت کی جائے۔ اس کی مزید تاکید اس حدیث میں ملتی ہے۔ حضرت ابو ہریرہؓ سے رویات ہے کہ آپﷺ نے فرمایا کہ جو شخص اللہ و یوم آخرت پر ایمان رکھتا ہو اسے چاہیے کہ وہ بھلائی کے لیے زبان کھولے یا چپ رہے (صحیح بخاری)
قرآن کی نظر میں آدابِ گفتگو میں یہ بھی شامل ہے کہ پست آواز میں بات چیت کی جائے، چیخا چلایا نہ جائے اور نہ گالج گلوچ کالہجہ اختیار کیا جائے۔ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:’’اور اپنی آواز پست رکھو، سب آوازوں میں سب سے زیادہ کریہہ آواز گدھے کی ہوتی ہے۔‘‘
قرآن کریم میں مجلس میں بیٹھنے کے آداب بھی بیان کیے گئے ہیں اور خاص طور سے یہ ہدایت دی گئی ہے کہ دوسروں کے بیٹھنے کے لیے گنجائش پیدا کی جائے اور اگر اس کے لیے کسی کے اٹھنے کی ضرورت پیش آئے تو اسے برا نہ مانا جائے، بلکہ خوشی خوشی اسے گوارا کیا جائے۔ ارشادِ الٰہی ہے:
ترجمہ: ’’اے مومنو! جب تم سے کہا جائے کہ مجلس میں کشادگی پیدا کرو تو کشادگی پیدا کرو، اللہ تم کو کشادگی بخشے گا اور جب کہا جائے کہ اٹھ کھڑے ہو تو اٹھ جایا کرو۔‘‘ (المجادلۃ)
احادیث شریفہ سے اس قرآنی ہدایت کی مزید تشریح ملتی ہے۔ نبی کریمﷺ کا ارشاد ہے کہ مسلمان کا یہ حق ہے کہ جب اس کا کوئی بھائی اسے اپنے پاس آتا دیکھے تو اس کے لیے اپنی جگہ سے کچھ ہٹے اور اسے اپنے قریب بٹھائے (سنن بیہقی)۔ لیکن اسی کے ساتھ یہ ہدایت بھی بڑی اہمیت رکھتی ہے کہ یہ کسی طرح جائز نہیں کہ مجلس میں کسی کو اس کی جگہ سے اٹھا کر خود اس کی جگہ بیٹھ جائے۔ (صحیح بخاری)
راستہ میں کیسے چلا جائے اور کیا طرزِ عمل اختیار کیا جائے۔ یہ بظاہر معمولی سی بات ہے کہ لیکن روز مرہ کی زندگی میں بڑی اہمیت رکھتی ہے۔ یہ بھی انسان کے دوسروں کے ساتھ برتاؤ اور اخلاقی زندگی کا بیرو میٹر ہے۔ یہی وجہ ہے کہ قرآن کریم نے اس کے آداب سکھائے ہیں، یعنی راستہ چلنے کا طریقہ بتایا ہے۔ ارشادِ ربانی ہے: ’’اور زمین پر اکڑ کر نہ چلو، بلاشبہ اللہ تعالیٰ کسی اترانے والے اور غرور کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔‘‘ (لقمان:۱۸)
اس کے آگے ارشاد ہے: ’’اور اپنی چال میں میانہ روی اختیار کرو۔‘‘ (لقمان:۱۹)
قرآن کریم سے راستہ چلنے کے کچھ اور اصول و آداب بھی واضح ہوتے ہیں اور اہم بات یہ ہے کہ ان کے مخاطب مرد و عورت دونوں ہیں۔ قرآن مجید کی متعلقہ ہدایت کے بارے میں یہ بات قابل غور ہے کہ سب سے پہلے مردوں کو یہ تاکید کی گئی کہ وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔ اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
ترجمہ: ’’اور مومن مردوں کو یہ ہدایت کیجیے کہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں۔‘‘ (النور:۳۰)
اس آیت سے مردوں کو اس جانب متوجہ کرنا ہے کہ ان کے لیے یہ روا نہیں ہے کہ وہ (چاہے گھر میں ہوں یا کہیں راستہ میں) اپنی نگاہیں ادھر ادھر عورتوں پر ڈالیں یا نظر کی بداحتیاطی کا شکار ہوں، اس لیے کہ اسی سے بے حیائی اور کسی کی عزت و عصمت سے کھیلنے کی راہیں کھلتی ہیں۔
دوسری جانب عورتوں کو مخاطب کرتے ہوئے انہیں یہ ہدایت دی گئی کہ راستہ چلتے وقت وہ اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، زیب و زینت کو ظاہر نہ کریں اور باقاعدہ حجاب اختیار کریں۔ اللہ رب العزب کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’اور (اے نبیؐ) مومن عورتوں سے کہہ دیجئے کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں اور اپنا بناؤ سنگار نہ دکھائیں سوائے اس کے جو خود ظاہر ہوجائے اور اپنے سینے پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھیں۔ (النور:۳۱)
نظر کی بے احتیاطی اور زیب و زینت کا اظہار گھر کے اندر ہوسکتا ہے اور گھر کے باہر بھی۔ لیکن سچی بات یہ ہے کہ اس کے زیادہ امکانات گھر کے باہر نکلنے پر ہی ہوتے ہیں۔ اس لیے قرآن کریم کی اس ہدایت کا تعلق دونوں مقامات سے ہے۔ دوسرے یہ کہ زینت سے مراد ہر وہ چیز ہے جس سے انسان اپنے آپ کو مزین اور خوش نما بناتا ہے۔ وہ عمدہ لباس بھی ہوسکتا ہے اور زیور بھی۔ آیت سے یہ تعلیم دینا مراد ہے کہ عورتیں اپنی زینت ظاہر نہ کریں۔ ان کی عزت و آبرو کے تحفظ کے پیش نظر مزید تاکید یہ کی گئی:
ترجمہ: ’’اور اپنے پیر زمین پر مارتی ہوئی اس طرح نہ چلا کریں کہ ان کی چھپی ہوئی زینت لوگوں کے سامنے ظاہر ہوجائے۔‘‘ (النور:۳۱)
ایک دوسری حدیث (بروایت حضرت عبد اللہ بن عمرؓ) کے مطابق رسول اکرمﷺ نے مردوں کو عورتوں کے بیچ چلنے سے منع فرمایا۔ اس سے یہ حکم نکلتا ہے کہ جس طرح عورتوں کے لیے ضروری ہے کہ وہ مردوں کے بیچ نہ چلیں، اسی طرح مردوں کو عورتوں کے بیچ چلنے سے پرہیز کرنا چاہیے۔
روز مرہ زندگی میں ایک دوسرے کے ساتھ ملاقات، بات چیت اور رہن سہن کا کیا رویہ اختیار کرنا چاہیے؟ بلاشہ اس کا تعلق بھی معاشرتی زندگی کے اصول و آداب سے ہے۔ اس باب میں قرآنی تعلیمات کا ایک بہت ہی اہم پہلو یہ ہے کہ ایک دوسرے کی عزت و وقار کا خیال رکھا جائے اور کسی کو حقارت کی نظر سے نہ دیکھا جائے اور اس کے لیے ضروری ہے کسی کا مذاق نہ اڑایا جائے۔ قرآن کی اس ہدایت کی اہمیت اس سے بہ خوبی واضح ہوتی ہے کہ مردوں اور عورتوں دونوں کو الگ الگ خطاب کر کے یہ ہدایت دی گئی ہے۔ اللہ رب العزت کا ارشاد ہے:
ترجمہ: ’’اے ایمان والو! کچھ لوگ دوسرے لوگوں کا مذاق نہ اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور (اسی طرح) عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق نہ اڑائیں، ہوسکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں اور ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ اور نہ ایک دوسرے کو برے لقب سے یاد کرو۔‘‘ (الحجرات:۱۱)
مولانا مفتی شفیعؒ کی رائے میں تنابز بالالقاب سے مراد کسی کو ایسے برے لقب سے پکارنا جس سے وہ ناراض ہوتا ہے، جیسے کسی کو لنگڑا، لولا، اندھا کانا کہہ کر پکارنا یا اس لفظ سے اس کا ذکر کرنا۔ اسی طرح جو نام کسی کی تحقیر کے لیے استعمال کیا جاتا ہے اس نام سے پکارنا۔ حدیث میں ہے کہ رسول اللہﷺ نے فرمایا کہ مومن کا حق دوسرے مومن پر یہ ہے کہ اسے ایسے نام یا لقب سے یاد کرے جو اس کو زیادہ پسند ہو۔
صفائی ستھرائی یا نظافت مومن کے مطلوبہ صفات میں سے ہے۔ قرآن و حدیث کی رو سے یہ اہتمام بدن، لباس، مکان اور دوسری چیزوں میں بھی مطلوب ہے۔ قرآن کی نظر میں اس کی اہمیت اس اعلان سے بخوبی واضح ہوتی ہے کہ اللہ رب العزت پاک و صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔ ارشاد ربانی ہے:
ترجمہ: ’’اس (مسجد) میں ایسے لوگ جمع ہیں جو اچھی طرح پاک و صاف رہنے کو پسند کرتے ہیں۔ اللہ تعالیٰ پاک و صاف رہنے والوں کو پسند کرتا ہے۔‘‘ (توبہ:۱۰۸)
یہ بخوبی معروف ہے کہ حدیث میں طہارت کو نصف ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے۔ نماز تمام عبادات میں افضل ہے۔ اس کی بجا آوری کے وقت پاک و صاف رہنے کی خاص تاکید کی گئی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ ایک مومن کے بارے میں یہ تصور نہیں کیا جاسکتاکہ وہ ناپاک یا گندا رہے گا۔ حضرت عبد اللہ بن عمرؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے فرمایا: مسلمانو! اپنے جسموں کو پاک و صاف رکھو۔ اللہ تمہیں پاک رکھے گا۔ اللہ طیب (پاک) ہے اور طیب (اشیاء) کو پسند کرتا ہے، نظیف ہے اور نظافت کو پسند کرتا ہے۔ حضرت سعدؓ سے مروی روایت ہے: ’’اپنے صحن کو صاف رکھو‘‘ (جامع ترمذی)۔ اس سے واضح ہوتا ہے کہ نبی کریمﷺ گھروں کی صفائی کی بھی تاکید کرتے تھے۔ یہ روایت تو بخوبی معروف ہے کہ آپﷺ مسجد اور اپنے گھر کی صفائی ستھرائی کا اہتمام کرتے تھے اور کبھی کہیں کوئی گندگی دیکھتے تو سخت ناپسند فرماتے اور اسے صاف کرنے کی جانب توجہ دلاتے۔ حضرت انس بن مالکؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ نے مسجد میں (دیوار پر) قبلہ کی جانب بلغم دیکھا تو غصہ کا اظہار کیا یہاں تک کہ چہرہ مبارک سرخ ہوگیا۔ ایک انصاری عورت نے اسے دیکھا تو اس کو رگڑ کر مٹا دیا اور اس کی جگہ خوشبو لگا دی۔ آپﷺ نے فرمایا کہ کیا ہی اچھا کام ہے (سنن نسائی)۔ آپﷺ کو یہ بات سخت ناپسند تھی کہ کوئی میلے کپڑے پہنے اور بال بے ہنگم رکھے۔ حضرت جابر بن عبد اللہؓ سے روایت ہے کہ نبی کریمﷺ ہمارے پاس آئے اور ایک شخص کو دیکھا کہ اس کے سر کے بال بکھرے ہوئے ہیں تو آپﷺ نے فرمایا کہ کیا یہ شخص کوئی چیز سر صاف کرنے کے لیے نہیں پاتا جس سے وہ اپنا سر آراستہ کرے اور (اسی طرح) ایک میلے کپڑے والے شخص کو دیکھ کر فرمایا کہ کیا اسے وہ (پانی یا صابن) نہیں ملتا جس سے وہ اپنا کپڑا دھولے۔ ان کے پاس کنگھا نہیں تھا کہ بال درست کرلیتے۔
آپﷺ نظافت کا اتنا خیال رکھتے تھے کہ سوکر اٹھتے تو قضائے حاجت سے فراغت کے بعد وضو کرتے اور لباس پر خوشبو لگاتے (خصائل نبویؐ)۔